بھارتی جیل میں حملے کا نشانہ بننے والا پاکستانی قیدی جاں بحق
9 مئی 2013ثنا اللہ رانجے پر ہونے والے حملے کو بظاہر لاہور میں جاسوسی و دہشت گردی کے مرتکب بھارتی قیدی سربجیت سنگھ پر حملے کا ردعمل قرار دیا گیا تھا۔ لاہور میں سربجیت سنگھ شدید زخمی حالت میں رہنے کے بعد گزشتہ جمعرات کے روز مر گیا تھا۔ اب اسی انداز میں زخمی ہونے والا پاکستانی قیدی ایک ہفتہ موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد انتقال کر گیا ہے۔
اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کی نعش چنڈی گڑھ پہنچے ہوئے دو رشتہ داروں کے حوالے کر دی جائے گی۔ یہ نعش آج یا کل تک بذریعہ ایمبولینس واہگہ بارڈر تک پہنچانے کا امکان ہے۔ ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے مطابق لاش رشتہ داروں کو دینے کی اجازت نئی دہلی حکومت کی جانب سے دی جا چکی ہے۔ مقتول پاکستانی قیدی کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور بقول اس کے رشتہ داروں کے غیر ارادی طور پر بھارتی سرحد عبور کر گیا تھا۔
اُس کے دو رشتہ دار چند روز قبل چنڈی گڑھ پہنچے تھے۔ گزشتہ روز انہوں نے ثنا اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کی انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اُس وقت زخمی پاکستانی قیدی جانکنی کے عالم میں تھا۔ چندی گڑھ کے جدید ہسپتال میں ڈاکٹروں نے یہ بتایا تھا کہ ثنا اللہ کے اعضا آہستہ آہستہ ناکارہ ہو رہے ہیں۔ بدھ کے روز اس کے گردوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بلڈ پریشر کو ادویات سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
تقریباً ایک ہفتہ قبل ثنا اللہ کو سربجیت سنگھ کی موت کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے جموں کی سخت سکیورٹی والی کوٹ بھلوال جیل میں ایک دوسرے بھارتی قیدی نے شدید زخمی کر دیا تھا۔ زخمی ہونے کے فوراً بعد پاکستانی قیدی کومے میں چلا گیا تھا۔
حملے کے حوالے سے جو رپورٹیں سامنے آئی تھیں ان کے مطابق چھتیس سالہ سابق بھارتی فوجی ونود کمار نے ثنا اللہ کے سر پر کلہاڑی سے حملہ کیا تھا اور یہ گھاؤ بہت گہرا تھا۔ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی جیلوں کے ڈائریکٹر کے راجندر کے مطابق ثنا اللہ کو سوجھی ہوئی خون آلود آنکھ اور چہرے کے ساتھ ابتدائی علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ بعد میں اس کی سنگین حالت کو دیکھتے ہوئے بذریعہ ہوائی سروس چندی گڑھ کے جدید ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا جہاں اس کا انتقال ہوا۔
(ah/aba(AFP