1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی حکومت نے ’کشمیر ٹائمز‘ کا دفتر سیل کر دیا

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
20 اکتوبر 2020

بھارتی حکومت نے کشمیر کے معروف اخبار 'کشمیر ٹائمز' کے سرینگر کے دفتر کو تالا لگا دیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اس کے خلاف یہ انتقامی کارروائی کی گئی ہے۔

IWMF 2020 Preisträgerin Masrat Zahra, Fotojournalistin | Bild aus Kaschmir, Indien, 2020
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/F. Khan

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے یا نوٹس دیے ہی معروف اخبار 'کشمیر ٹائمز' کے سرینگر کے دفتر کو سیل کر دیا۔ اخبار کے مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت نے کارروائی سے قبل نہ تو کوئی نوٹس جاری کیا اور نہ ہی دفتر سے بے دخل کرنے کے لیے کوئی وجہ بتائی اس لیے یہ غیر قانونی کارروائی ہے۔

کشمیر ٹائمز کا مرکزی دفتر جموں میں ہے تاہم اخبار سرینگر اور جموں دونوں شہروں سے شائع ہوتا رہاہے۔ سرینگر میں حکومت نے دیگر میڈیا اداروں کی طرح میں پریس اینکلیو میں واقع اپنی ایک عمارت اسے جگہ دے رکھی تھی۔ پیر کے روز سرکاری حکام دفتر پہنچے اور اس پر تالاڈال دیا۔

اخبار کی ایڈیٹر اور مالک انورادھا بھسین کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت کو اپنے خلاف تنقید قطعی پسند نہیں ہے اسی لیے اس نے 'کشمیر ٹائمز' کے خلاف انتقامی کارروائی کی ہے۔

 ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انورادھا بھسین نے کہا، ''ہمارا اخبار کشمیر سے متعلق حکومت کی پالسیوں اور اس کی کارروائیوں پر مسلسل تنقید کرتا رہا ہے۔ ہم عوام کی آواز بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ہمارے اداریے اور مضامین حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اور حکومت اپنے خلاف آواز سننے کو ہرگز تیار نہیں ہے وہ خاموش کردینا چاہتے ہیں۔''

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

04:16

This browser does not support the video element.

محترمہ بھسین کا کہنا تھا کہ کشمیر میں آزاد میڈیا اور صحافیوں کے ساتھ جو رویہ ہے اس سے کون واقف نہیں ہے۔ آئے دن ان کے خلاف کیسز درج کیے جا رہے ہیں۔ ''رپورٹروں کو حراست میں لیا جاتا ہے ان کے ساتھ مار پیٹ بھی ہوتی ہے اور تھانے میں طلب کر کے انہیں ڈرایا اور دھمکایا بھی جاتا ہے۔ تو اسی کا یہ تسلسل ہے کہ ہمیں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔'' 

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کسی کو دفتر مہیا کر رکھا ہے تو اس کی منسوخی کا بھی ایک ضابطہ ہے۔ ''حکومت کو پورا اختیار ہے کہ وہ معاہدے کومنسوخ کرسکتی ہے تاہم اس معاملے میں ضابطہ اخلاق کو طاق پر رکھ دیا گیا اور بغیر کسی نوٹس یا پھر  پیشگی اطلاع کے ہی اسے سیل کر دیا گیا۔ ہمیں دفتر خالی کرنے کا کوئی وقت بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی اب تک اس کی کوئی وجہ بتائی گئی ہے۔''

 محترمہ انورادھا بھسین کا کہنا تھا کہ دفتر خالی کرنے کا وقت نہ ملنے سے، کمپیوٹر اور اخبار کی اشاعت سے متعلق دیگر چیزیں اندر ہی رہ گئیں۔ ان کے بقول اس سے ان کا کام کاج بری طرح متاثر ہوگا اور کورونا کی وبا کے بعد سرینگر سے اخبار کی دوبارہ اشاعت کی جو کوششیں جاری تھیں اسے بڑھا دھچکا لگا ہے۔ ''ایک ایسے وقت جب ہمیں پیسوں کی شدید قلت کا سامنا ہے، شاید اب اسے دوباہ شائع کرنا بہت مشکل ہوگا۔

کشمیر سے لداخ تک کا سفر

04:01

This browser does not support the video element.

انورادھا  بھسین کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے جب کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور کشمیری میڈیا پر مکمل پابندی عائد کردی گئی تھی، تو حکومت کے اس فیصلے کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی اور اسی دن سے حکومت نے 'کشمیر ٹائمز‘ کو اشتہار دینا بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ دفتر سیل کرنے سے پہلے اس طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا لیکن جب بھی سینیئر حکام سے اس بارے میں سوال کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور پھر اچانک کارروائی کردی۔

 ان کا کہنا تھا کہ چونکہ جموں میں پہلے ہی حکومت ان کے ایک فلیٹ کو سیل کرنے کی کارروائی کر چکی تھی اس لیے انہیں کچھ شک تھا اور اسی لیے، ''ہم نے عدالت میں عرضی دی تھی، سماعت ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھنے کی بات کہی گئی۔ اب کئی دن گزر چکے ہیں تاہم تمام کوششوں کے باوجود آرڈر نہیں ملا ہے اور ہر دن یہی کہا جا رہا ہے کہ اگلے دن مل جائیگا۔''

گزشتہ برس بھارتی حکومت نے کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کر دیا تھا اور اس کے رد عمل سے بچنے کے لیے بھارتی حکومت نے تمام کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی ایسی بندشیں عائد کی تھیں کہ میڈیا اور دیگر نشریاتی ادارے بھی بند ہوکر رہ گئے تھے۔ اس کارروائی کے بعد سے ہی کشمیر کے متعدد صحافیوں کے خلاف سخت قوانین کے تحت مقدمات درج ہوتے رہے ہیں اور متعدد صحافی حکومت کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

04:44

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں