بھارتی خلائی مشن چندریان دوئم چاند کے مدار میں پہنچ گیا
20 اگست 2019
بھارت کا بغیر کسی خلاباز کے چاند کی طرف بھیجا جانے والا خلائی مشن چندریان دوئم منگل بیس اگست کو کامیابی سے چاند کے مدار میں پہنچ گیا۔ یہ بات بھارتی خلائی تحقیقی ادارے اِسرو (ISRO) کی طرف سے بتائی گئی۔
اشتہار
نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق بھارت کے خلائی تحقیقی ادارے کے ماہرین نے بتایا کہ چندریان دوئم کو چاند کے مدار میں پہنچانا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل تھا، لیکن 142 ملین ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجے جانے والے اس مشن کو کامیابی سے زمین کے چاند کے مدار میں پہنچا دیا گیا ہے۔
اس مشن کے ذریعے بھارتی ماہرین کل 14 روز تک چاند کے جنوبی قطب کی سطح کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے اور اس دوران اس سطح کی ہیئت کا بغور مطالعہ کرنے کے علاوہ چاند کی سطح پر پانی یا اس کے آثار تلاش کرنے کی کاوش بھی کی جائے گی۔
انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کے سربراہ کے سیوان نے بنگلور میں اس ادارے کے صدر دفاتر میں صحافیوں کو بتایا کہ چندریان دوئم کو چاند کے مدار میں پہنچانے کا عمل، جو Lunar Orbit Insertion یا (LOI) کہلاتا ہے، مقامی وقت کے مطابق منگل 20 اگست کی صبح نو بج کر دو منٹ (عالمی وقت کے مطابق صبح چار بج کر بتیس منٹ) پر شروع کیا گیا، جو 29 منٹ میں مکمل ہو گیا۔
چاند کے مدار میں پہنچائے جانے کا پیچیدہ عمل
کے سیوان کے بقول تکنیکی طور پر یہ بہت پیچیدہ طریقہ کار ان کئی انتہائی مشکل مراحل میں سے ایک تھا، جن کی کامیاب تکمیل پر چندریان دوئم اب چاند کے مدار میں پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مشن کو چاند کے مدار میں بحفاظت پہنچانے کے لیے ایک مخصوص حد تک اونچائی اور رفتار کی ضرورت تھی، جس میں اگر معمولی سی بھی غلطی ہو جاتی، تو یہ مشن ناکام ہو جاتا۔
اِسرو کے سربراہ نے صحافیوں کو بتایا، ''ان تقریباﹰ 30 منٹوں تک، جب چندریان کو چاند کے مدار میں پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی، ہمارے دلوں کی دھڑکن جیسی رک گئی تھی۔‘‘
اس مشن کا نام 'چندریان‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی 'چاند گاڑی‘ کے ہیں اور بھارتی ماہرین نے یہ مشن گزشتہ ماہ کی 22 تاریخ کو جنوبی بھارت میں قائم سری ہری کوٹا نامی خلائی مرکز سے چاند کی طرف سفر پر بھیجا تھا۔ اس مشن کے لیے استعمال کیا جانے والا راکٹ بھی بھارت ہی میں تیار کیا گیا تھا۔
چاند کی سطح پر لینڈنگ سات ستمبر کو
چندریان دوئم کا وزن 3.8 ٹن ہے اور اس مشن میں ایک اوربٹر، ایک لینڈر اور ایک روور تینوں شامل ہیں۔ یہ مشن جنوبی بھارت سے اپنی روانگی کے بعد زمین سے چاند تک تین لاکھ چوراسی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے چاند کے مدار میں پہنچا۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
اِسرو کے مطابق چندریان دوئم چاند کے مدار میں سفر کرتا کرتا بتدریج چاند کی سطح کے قریب ہوتا جائے گا اور اس مشن کے ساتھ بھیجا گیا لینڈر اور روور متوقع طور پر ستمبر کی سات تاریخ کو چاند کے اس جنوبی قطبی علاقے میں اتریں گے، جسے آج تک تسخیر نہیں کیا گیا۔
سو کلومیٹر کی بلندی سے چاند کی سطح پر
اس مشن سے چاند کی سطح پر اترنے کے لیے لینڈر اور روور کو چندریان دوئم سے اس وقت علیحدہ کیا جائے گا جب یہ مشن چاند کی سطح سے صرف تقریباﹰ 100 کلومیٹر کی بلندی پر اپنے مدار میں گردش کر رہا ہو گا۔
بھارتی خلائی ایجنسی کے سربراہ کے مطابق چندریان دوئم سے علیحدگی کے بعد اس کے لینڈر اور روور کو چاند کی سطح پر اترنے میں تقریباﹰ 15 منٹ لگیں گے اور یہ 'فائنل لینڈنگ‘ اس مشن کا مجموعی طور پر کٹھن ترین اور انتہائی صبر آزما مرحلہ ہو گی۔
ماہرین کے مطابق چاند کی سطح پر کسی بھی مصنوعی سیارے یا لینڈر کی حسب خواہش 'سافٹ لینڈنگ‘ کی شرح اوسطاﹰ صرف 37 فیصد ہوتی ہے۔ بھارت نے چندریان دوئم سے پہلے چاند کی طرف اپنا پہلا خلائی مشن چندریان اول 2008ء میں خلا میں بھیجا تھا لیکن وہ چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا تھا۔
م م / ا ا / اے ایف پی
ساٹھ برس قبل پہلے بندروں کا جوڑا خلا میں بھیجا گیا تھا
اٹھائیس مئی سن 1959 کو دو بندر مس بیکر اور ایبل کو خلا کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔ اُن کا پندرہ روز خلائی سفر ایک سنگ میل ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور جانور بھی خلا میں بھیجے گئے۔
تصویر: imago/UIG/NASA
خلائی مشن کے لیے جانوروں کا انتخاب
سب سے پہلا بندر گورڈو کو سن انیس اٹھاون میں خلا کے سفر پپہلے خلائی سفر روانہ کیا گیا اور وہ بدقسمتی سے دورانِ سفر مر گیا۔ تصویر میں مس بیکر اور ایبل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک گلہری بندر اور دوسرا ریسس بندر ہے۔ یہ جوڑا خلا میں پندرہ دن تک رہنے کے بعد مئی سن 1959 زندہ لوٹے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خلا میں بھی محفوظ رہے
پہلے خلائی سفر میں ایبل اور مس بیکر نامی بندروں کا جوڑا پندرہ دن محفوظ رہا اور مدار سے زندہ واپس لوٹا۔ اُن پر زیرو کشش ثقل کے تجربات بھی کیے گئے۔ ایبل نامی بندر خلا سے زمین پر پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد مر گیا۔ مس بیکر نامی بندریا نے طویل عمر پائی اور وہ سن 1984 میں مری۔
تصویر: imago/UIG/NASA
خلائی کیپسول میں
مس بیکر اور ایبل جوڑے کی طرح سام نامی بندر (اوپر تصویر میں) پر زیرو کشش ثقل کے تجربات نہیں کیے گئے۔ اُس کی ناسا کے خلائی کیپسول مرکری میں فوکس ریسکیو سسٹم پر رہا۔ اس تجرباتی خلائی پرواز میں سام زندہ رہا۔ سام بھی مس بیکر کی طرح ریسس بندروں کی نسل سے تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone
پہلے چیمپینزی کی خلا کے لیے روانگی
ہام نامی پہلے چیمپینزی کو سن 1961 میں خلائی سفر کے لیے منتخب کیا گیا۔ اُس پر زیرو کشش ثقل کے تجربات بھی کیے گئے۔ چیمپینزی کو خصوصی خلائی لباس پہنایا گیا اور بے وزنی کی حالت کو برداشت کرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔ ہیم کے خلائی سفر کے بعد زمین کے مدار میں ایلن شیپرڈ نامی خلاباز کو روانہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
خلا میں سب سے پہلے کتا بھیجا گیا تھا
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندروں کی خلا میں روانگی سے قبل کتوں کو خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔ کتوں کو خلا میں بھیجنے کے تجربات اُس وقت کے سوویت یونین کے خلائی ادارے نے مکمل کیے۔ سوویت خلائی مشن اسپٹنک ٹُو میں لائیکا نامی ایک مادہ (اوپر تصویر میں) کو خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔ خلا میں جانے والا یہ پہلا چار ٹانگوں والا جانور تھا۔ لائیکا خلائی سفر سے زندہ لوٹی لیکن زمین پر پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد مر گئی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
بعض کتے خلائی سفر کے بعد زندہ رہے
سابقہ سوویت یونین کے مشن میں لائیکا تو خلائی سفر کے بعد مر گئی اور پھر سن 1960 میں خلائی جہاز کے اندر مزید بہتر لا کر مزید دو کتوں کو روانہ کیا گیا۔ اسٹریلکا اور بیلکا نامی کتے خلائی اس سفر سے زند بچ کر لوٹے۔ اسٹریلکا زندہ بچ جانے والی ایک مادہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/E. Biyatov
کتوں سے قبل بھی کچھ اور بھیجا گیا
بظاہر کتے پہلے جانور تھے، جنہوں نے خلائی سفر کیا لیکن ان سے دس برس قبل سن 1947 میں ایک خلائی جہاز پر پھل مکھیوں کو روانہ کیا گیا تھا۔ یہ پھل مکھیاؒں خلا میں محفوظ رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جانوروں کا تحفظ سائنسی تحقیق سے بالا ہے
خلا کے لیے بندروں اور کتوں کو روانہ کرنے کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ لیکن ناسا جانوروں کے بغیر اپنی خلائی تحقیق مکمل نہیں کرتا۔ آج بھی چھوٹے مگر باہمت جانوروں پر تحقیقی عمل جاری ہے۔ سن 2007 میں یورپی خلائی ایجنسی نے کچھ سست رفتا جانور خلا میں بھیجے تھے۔ یہ جانور کاسمک شعاؤں اور کھلے خلا میں کچھ وقت گزارنے کے بعد بھی زندہ رہے تھے۔