1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی خواتین کی سیاست میں شرکت غیر متاثرکن کیوں؟

16 اپریل 2019

بھارت میں خواتین اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں تاہم اس کے باوجود اس مردانہ معاشرے میں خواتین کی سیاسی میدان میں شرکت محدود ہے۔ کیا حالیہ انتخابات میں کسی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

Indien EVM Elektronische Wahlautomaten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Nath

بھارتی سیاست میں خواتین کچھ حکومت میں اعلی عہدوں پر فائز رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے اقتدار کے دو ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور سن 1966 سے سن 1980 تک تھا جب کہ دوسرا سیاسی سفر سن 1980 میں شروع ہوا اور سن 1984 تک جاری رہا۔ اکتوبر سن 1984میں نئی دہلی صفدرجنگ روڈ پر واقع اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر انہیں قتل کر دیا گیا۔

 آج کل بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع خواتین ہیں۔ سونیا گاندھی حزب اختلاف کی سیاست دان ہیں، جو ایک طاقتور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ امریکی میگزین فوربزکی ایک فہرست کے مطابق وہ دنیا کی طاقتور خواتین میں سے ایک ہیں۔

تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Shukla

 ڈائریکٹر برائے سماجی تحقیق نئی دہلی رانجانا کماری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’بھارتی سماج میں دو اقسام کی خواتین سیاست میں شمولیت اختیار کرتی ہیں۔ ایک وہ جو بڑے سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہوں اور دوسری وہ جنہوں نے بہت نچلے طبقے سے سیاست سفر کا آغاز کیا ہو۔ مثال کے طور پر ممتا بینرجی جو مغربی بنگال ریاست کی وزیر اعلی ہیں یا پھر ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی سابق وزیر اعلی مایاواتی۔

خواتین کے مسائل پر زور

 خواتین کے مسائل کے حوالے سے سال 2019  کے بھارتی انتخابات اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ بھارتی اپوزیشن نیشنل کانگریس پارٹی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پارلیمان سے وہ بل منظور کرائے گی، جس کا تعلق لوک سبھا میں خواتین کی تینتیس فیصد نمائندگی سے ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ آیا سیاسی معرکے پر خواتین کی موجودگی کا کتنا اثر پڑے گا، لیکن بھارت میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ کرنے کی اہل ہےکہ فیصلہ کسی بھی سمت جا سکتا ہے۔    

تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman

پارلیمان میں کم نمائندگی

بھارت کے انتخابی کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق،’’ بھارت میں تقریباً بیالیس کروڑ سے زائد خواتین ووٹ ڈالنے کی اہل ہیں۔ ایوان زیریں یعنی ’لوک سبھا‘ میں خواتین کی تعداد 11 فیصد ہے البتہ خواتین کی 33 فیصد شمولیت یقینی بنائے جانےکا بل ابھی قانون سازوں کی جانب سے پاس نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

کاروندا نندی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ دسمبر سن 2012 میں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی نربھیاکی بھی وکیل ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری سیاسی جماعتیں بہت پدرانہ ذہنیت کی مالک ہیں اورخواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے‘‘۔

ر ا / ع ا (مانسی گوپالا کرشنن)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں