بھارت جیسے ملک میں جہاں خواتین کے مخصوص ایام کے خون کو کالا جادو کرنے کا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے، اب چند محققین نے دیہی علاقوں میں خواتین کو سروائیکل کینسر کے ٹیسٹ کے لیے سینیٹری پیڈز استعمال کرنے پر قائل کیا ہے۔
اشتہار
بھارت کا شمار دنیا بھر میں خواتین میں بچہ دانی کے نچلے حصے کے کینسر کے کیسز کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہاں ہر پندرہ منٹ پر دو خواتین اس سرطان کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اور ہر چار منٹ پر سروائیکل کینسر کا ایک نیا کیس سامنے آتا ہے۔
سروائیکل کینسر خواتین میں پایا جانے والا ایک طرح کا سرطان ہے جو رحم مادر کے شروع کے حصے میں ہوتا ہے، جس کی تشخیص اگر ابتدا ہی میں کر لی جائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بھارت میں خواتین، خصوصاﹰ دیہاتوں میں رہنے والی عورتیں سماجی پابندیوں کی وجہ اس کینسر کی اسکریننگ کے لیے ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتیں۔ کچھ تو شرم و حیا کے مارے اس عمل سے گزرنا ہی نہیں چاہتیں۔ اب بھارت کے نیشنل انسٹیٹیوٹ برائے ری پروڈکٹیو ہیلتھ اور ٹاٹا میموریل سینٹر کے ریسرچرز کو امید ہو چلی ہے کہ اس صورت حال میں تبدیلی آئے گی۔
یہ محققین ایک پروجیکٹ کے تحت خواتین سے اُن کے استعمال شدہ سینیٹری پیڈز جمع کر کے ان سے ملنے والے خون کے ذرات کی سروائیکل کینسر کے لیے جانچ کرواتے ہیں۔ اگر اس خون میں ’ہیومن پیپیلوما وائرس‘ یا ایچ پی وی کی موجودگی کا پتہ لگے تو ایسی خاتون کو رحم کا سرطان ہو سکتا ہے۔
ماؤں کا عالمی دن، محض خوشی کا موقع ہی نہیں
حقوق نسواں کی علمبردار این جاروِس نے 1907ء میں اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یہ دن منانے کے سلسلے کا آغاز کیا تھا، لیکن بہت سی خواتین کے لیے ماں بننا خطرے کا باعث بھی ہوتا ہے۔
تصویر: BOUYS/AFP/Getty Images
زچگی: ہمیشہ محفوظ بھی نہیں
سال میں ایک بار بچے اپنی ماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ماؤں کو اس دن تحائف اور پھول پیش کرنے کے علاوہ انہیں بستر پر ہی ناشتہ بھی کراتے ہیں۔ لیکن اس تصویر میں امریکی ریاست الاسکا سے تعلق رکھنے والی ماں اور اس کا بچہ دنیا بھر کی ماؤں کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زچگی کے بعد کے پہلے 24 گھنٹے ماں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور بہت سی مائیں ہلاک ہو سکتی ہیں۔
تصویر: BOUYS/AFP/Getty Images
بحران کی شکار ریاست: ڈیموکریٹک ری پبلک کانگو
ماؤں کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ڈیموکریٹک ری پبلک کانگو میں کرنا پڑتا ہے۔ ’سیو دا چلڈرن‘ نامی غیر سرکاری تنظیم دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم، صحت اور سماجی حالات سے متعلق اعداد وشمار اکٹھا کرتی ہے۔ وسطی افریقی ریاست کانگو اس حوالے سے مرتب کی گئی 176 ممالک کی فہرست میں آخری نمبر پر رہی ہے۔ وہاں اوسطاﹰ 30 میں سے ایک ماں زچگی کے دوران یا اس کے فوری بعد ہلاک ہو جاتی ہے۔
تصویر: JUNIOR D.KANNAH/AFP/Getty Images
غربت اور عدم تعلیم
سیو دا چلڈرن کی مرتب کردہ ’مدر انڈیکس‘ کے مطابق شورش اور قحط کا شکار مشرقی افریقی ریاست صومالیہ میں خواتین کانگو کے بعد بد ترین حالات کا شکار ہیں۔ اس درجہ بندی کے دیگر اہم عناصر میں ماؤں کی شرح اموات، مناسب تعلیم کی عدم دستیابی اور ان کی کم تر معاشی حالت کا جائزہ بھی شامل تھا۔
تصویر: Mohamed Abdiwahab/AFP/Getty Images
بیشتر افریقی ممالک میں بہتری کی ضرورت
یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ’مدر انڈیکس‘ میں آخری دس پوزیشنوں پر جو ممالک ہیں وہ براعظم افریقہ سے ہی ہیں۔ ان میں مالی، سیرالیون، سینٹرل افریقن ری پبلک، چاڈ اور آئیوری کوسٹ بھی شامل ہیں۔ تاہم کینیا میں مائیں، جیسا کہ تصویر میں دکھائی گئی مسائے خاتون، کسی حد تک خوش قسمت ہیں۔ کینیا میں حالات کسی حد تک بہتر ہیں اور وہاں ہونے والے حالیہ انتخابات میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں بھی رکھی کی گئی ہیں۔
تصویر: CARL DE SOUZA/AFP/Getty Images
افغانستان میں بہتری
افغانستان میں ہونے والے حملے تو اکثر خبروں میں رہتے ہیں تاہم وہاں خواتین کو درپیش خطرناک صورت حال پر توجہ کم ہی دی جاتی ہے۔ صحت کے حوالے سے حالات میں بہتری کی وجہ سے یہ ملک ’مدر انڈیکس‘ میں آخری پوزیشن سے اب 145ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ تاہم اب بھی وہاں صرف 14 فیصد مائیں ہی ایک تربیت یافتہ دایہ کی موجودگی میں زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں۔
تصویر: Getty Images
ناکافی خوراک اور بیماری
ایک فلپائنی محاورے کے مطابق ’زچگی کے دوران عورت کا ایک پاؤں قبر میں ہوتا ہے‘۔ قابل افسوس حقیقت یہ ہے کہ فلپائن میں ہر برس 4,600 کے قریب خواتین زچگی کے عمل کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ہلاکت کی بڑی وجوہات ضروت سے زیادہ خون بہہ جانا، ناکافی خوراک اور ملیریا اور ایچ آئی وی ایڈز جیسی بیماریاں ہیں۔
تصویر: PETER PARKS/AFP/Getty Images
امریکا: بچوں کی شرح اموات
سیو دا چلڈرن تنظیم کی طرف سے نو مولود بچوں کی صورت حال کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور اس جائزے کا ایک حیران کن نتیجہ بھی سامنے آیا۔ امریکا میں دنیا کے دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ وہاں ہر برس قریب 11,300 بچے اس نازک مرحلے کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ تعداد باقی تمام صنعتی ممالک کی مجموعی تعداد سے بھی 50 فیصد زائد ہے۔
تصویر: Jason Merritt/Getty Images for Baby2Baby
جرمنی مزید بہتری کی جانب
جرمنی میں ماؤں کی صورت حال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ تعلیم، آمدنی اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے سبب جرمنی رواں برس ’مدر انڈیکس‘ میں نویں نمبر پر آگیا ہے۔ گزشتہ برس یہ 12ویں پوزیشن پر تھا۔ تاہم جرمنی کے مرکزی دفتر شماریات کے مطابق یہاں فی خاتون بچوں کی شرح پیدائش محض 1.36 بچے ہیں جو دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں ماؤں کے حالات اس قدر اچھے نہیں ہیں جتنے فن لینڈ میں۔ اس شمالی یورپی ملک نے سیو دا چلڈرن کی اسٹڈی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کامیابی کی وجوہات میں انتہائی مناسب صحت کی سہولیات، ریاست کی طرف سے مالی معاونت اور پورے دن بچوں کی نگہداشت کے ادارے شامل ہیں۔ نئی ماؤں کو بچے کی دیکھ بھال کے لیے ایک خصوصی پیکج بھی فراہم کیا جاتا ہے جس میں نئے خاندان کی ضروریات کا مکمل سامان موجود ہوتا ہے۔
تصویر: SARI GUSTAFSSON/AFP/Getty Images
9 تصاویر1 | 9
اس منصوبے کے مرکزی محقق اتُل بودُخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ آئیڈیا یہ تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے جو بھارت کی دیہی خواتین کے لیے مفید ہو۔ گاؤں دیہاتوں میں رہنے والی خواتین حیض کے ایام میں پرانے کپڑوں کے پیڈ استعمال کرتی ہیں اور اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے چلی جاتی ہیں۔ یہ عورتیں یومیہ ڈھائی سو سے تین سو انڈین روپے کماتی ہیں اور ڈرتی ہیں کہ اگر وہ کینسر کے ٹسٹ کے لیے گئیں تو اُن کے پیسے ختم ہو جائیں گے۔‘‘ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر دس بھارتی خواتین میں سے صرف ایک بازار میں ملنے والے کمرشل سینیٹری پیڈز استعمال کرتی ہیں۔
بھارت میں حیض کے تصور کے ساتھ بہت سی داستانیں اور توہمات بھی وابستہ ہیں۔ حیض کے خون کو کالے جادو کے لیے کارآمد قرار دیا جاتا ہے۔ ایک مقامی ہیلتھ ورکر خاتون سنگیتا کولی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ جن خواتین سے ٹسٹ کے لیے سینیٹری پیڈز اکٹھے کیے گئے اُنہیں فکر تھی کہ کہیں ان پیڈز کو کالے جادو یا ایسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ پیڈز کو صرف ریسرچ کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا۔‘‘
بھارت میں عام طور پر خواتین کے ایام مخصوصہ پر بات نہیں کی جاتی۔ بہت سی خواتین کو اس دوران ’ناپاک‘ قرار دیتے ہوئے انہیں بچوں سے دور رہنے، غسل نہ کرنے اور باورچی خانے میں نہ جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حیض کے دنوں میں خواتین مندروں میں جانے اور عبادت کرنے سے بھی قاصر ہوتی ہیں۔