1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی رکن پارلیمان کی ریپ کی دھمکی پر شدید غم و غصہ

مقبول ملک1 جولائی 2014

بھارت میں آج منگل کے روز ایک ایسے رکن پارلیمان کے استعفے کے مطالبات زور پکڑ گئے اور عوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا، جس نے اپنے سیاسی مخالفین کو ان کے رشتہ داروں کو ریپ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

نئی دہلی میں لوک سبھا کی عمارتتصویر: UNI

بھارتی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق بھارت میں کئی خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتیوں اور ان کے قتل کے متعدد حالیہ واقعات پر پورے ملک میں غصے کی فضا پائی جاتی ہے اور اب ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان تپاس پال کی ایک ایسی ویڈیو ریکارڈنگ عام شہریوں کے اشتعال کی وجہ بن گئی ہے، جس میں اس سیاستدان کو واضح طور پر یہ دھمکی دیتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بائیں بازو کے سیاسی مخالفین کے خلاف حملوں کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔

بھارت میں خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتیوں اور ان کے قتل کے حالیہ واقعات پر غم و غصے کی فضا پائی جاتی ہےتصویر: Reuters

ابھی حال ہی میں منظر عام پر آنے والی یہ ویڈیو ایک اسمارٹ فون کے ذریعے کی گئی ریکارڈنگ ہے، جس میں مئی کے آخر میں تپاس پال کو اپنے سیاسی حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’’اگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ یا CPIM نے ہمارے کارکنوں کو نشانہ بنانے یا انہیں ہلاک کرنے کی کوشش کی تو میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔ میں اپنے آدمیوں کو ان کی خواتین کو ریپ کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دوں گا۔‘‘

اس بیان کی منگل یکم جولائی کے روز پورے بھارت میں وسیع تر مذمت کی گئی۔ مذمت کرنے والوں میں خود ان کی اپنی جماعت ترنمول کانگریس بھی شامل ہے، جس کے لیے عوامی حمایت کا مرکز یوں تو مغربی بنگال کی ریاست ہے لیکن جو موجودہ لوک سبھا میں چوتھی سب سے بڑی پارٹی ہے۔

تپاس پال کے اس بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آ جانے کے بعد ان کی پارٹی کے ترجمان ڈیرک اوبرائن نے کہا، ’’پارٹی کی سربراہ اور مغربی بنگال کی خاتون وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی ان ریمارکس پر انتہائی غصے میں ہیں۔‘‘ ڈیرک اوبرائن کے مطابق ان کی پارٹی تپاس پال کے بیان کی ’کسی بھی طرح نہ حمایت کرتی ہے اور نہ توثیق۔‘‘

ترنمول کانگریس کی سربراہ اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجیتصویر: Dibyangshu Sarkar/AFP/Getty Images

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تپاس پال نے، جو رکن پارلیمان بننے سے پہلے کولکتہ میں بنگلہ فلم انڈسٹری کے ایک معمولی سے اداکار تھے، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے اور ملک گیر سطح پر اس کی مذمت کیے جانے کے بعد اپنی ذات اور پارٹی کو پہنچنے والے سیاسی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ’بیان کا غلط حوالہ‘ دیا گیا ہے۔

بعد ازاں نشریاتی ادارے CNN-IBN کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تپاس پال نے اپنے متنازعہ بیان پر معذرت کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے اس بیان میں جنسی زیادتی یا ریپ کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔ تپاس پال کے مطابق، ’’میں نے ’ریپ‘ کہا ہی نہیں۔ میں نے تو ’ریڈ‘ کہا تھا، جس کا مطلب چھاپہ مارنا ہوتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ تمام جگہوں پر تمام لوگوں کے خلاف چھاپے مارے جانے چاہیئں، جن میں عورتیں اور بوڑھے بھی شامل ہوں۔‘‘

تپاس پال کے اس بیان کے برعکس خود ان کی اپنی بیوی نندنی نے بھی کہہ دیا ہے کہ یہ بیان دیتے ہوئے ان کے شوہر ’پٹری سے اتر‘ گئے تھے۔ نندنی پال نے کولکتہ میں صحافیوں کو بتایا، ’’مجھے اس بات پر بہت برا محسوس ہو رہا ہے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا، وہ رکن پارلیمان کے طور پر درست بات نہیں ہے۔‘‘

اسی دوران بھارت کے نیشنل کمیشن فار وویمن کی سربراہ ممتا شرما نے کہا ہے کہ تپاس پال کو فوری طور پر پارلیمان کی رکنیت سے استعفیٰ دے دینا چاہیے اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کو پارٹی کی سربراہ کے طور پر اپنی جماعت کے اس منتخب رکن کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔

دریں اثنا بھارتی کمیونسٹوں کے سربراہ بریندا کرات نے بھی کہا ہے کہ تپاس پال کے بیانات کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہیں اور ان کی لوک سبھا کہلانے والے ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں کی رکنیت بلا تاخیر معطل کی جانا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں