1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسام میں مسلم میرج لاء منسوخ، مسلمانوں کی طرف سے تنقید

25 فروری 2024

بھارتی رياست آسام ميں کم عمری میں شادیوں سے متعلق تقریباﹰ نوے برس پرانا ایک قانون منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اقلیتی مسلم برادری نے اس مسلم میرج لاء کی منسوخی کو ''امتیازی اقدام‘‘ قرار دیا جبکہ حکومت نے اس کا دفاع کیا ہے۔

Massenhochzeit in Indien
تصویر: Saurabh Das/AP/picture alliance

ریاستی حکومت کے مطابق یہ منسوخی آسام میں نابالغ افراد کی شاديوں کی شرح کم کرنے کے ليے کی گئی ہے۔ تقریباﹰ 89 برس پرانے اور برطانوی راج کے دور میں نافذ کیے گئے اس قانون کے تحت ایک مذہبی اقليت کے طور پر بھارتی مسلم برادری کو یہ اختیار حاصل تھا کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے قانونی طور پر شادی ممکن ہے۔ مسلم رہنماؤں نے اس فيصلے پر شديد رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے انتخابات سے قبل ووٹروں کو تقسيم کرنے کی حکومتی کوشش قرار ديا ہے۔

بھارت میں کمسن لڑکیوں سے شادی کرنے پر ہزاروں مرد گرفتار

بھارت: کورونا کے سبب والدین پر لڑکیوں کا 'بوجھ‘ بڑھ گیا

’لڑکيوں کی کم عمری ميں شادی اور غلامی کا تعلق‘

آسام کے وزير اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے مائیکرو بلاگنگ پليٹ فارم ايکس پر جاری کردہ ايک پيغام کے ذريعے اطالاع دی کہ سن 1935 کے 'آسام مسلم ميريجز اينڈ ڈائيورسز رجسٹريشن ايکٹ‘ کو چوبيس فروری سے منسوخ کر ديا گيا ہے۔

بسوا سرما نے ايک اور پيغام ميں اس فيصلے کی وضاحت یوں کی، ''يہ ايکٹ لڑکی اور لڑکے کی عمر بالترتيب اٹھارہ اور اکيس تک پہنچنے سے قبل شادی کی رجسٹريشن کی اجازت ديتا تھا۔ تازہ فيصلہ آسام ميں کم عمری میں يا نابالغ افراد کی شادیوں کی روک تھام کے سلسلے ميں ايک اہم قدم ہے۔‘‘

تصویر: Sam Panthaky/AFP/Getty Images

مسلم اقليت کا رد عمل

مسلم اپوزيشن رہنماؤں نے اس فيصلے کو 'امتيازی‘ قرار ديا ہے۔ آل انڈيا يونائیٹڈ ڈيموکريٹک فرنٹ کے صدر اور آسام کے ايک مسلم رکن پارلیمان بدر الدين اجمل نے کہا، ''وہ مسلمانوں کو اکسا کر اپنے ووٹروں کو تقسيم کرنا چاہتے ہيں، جسے ہم ہونے نہيں ديں گے۔‘‘

انہوں نے مزيد کہا، ''يہ ايک يکساں سول کوڈ لانے کے عمل کی طرف پہلا قدم ہے، البتہ يہ اقدام رياست آسام ميں بھارتيہ جنتا پارٹی کا اختتام ثابت ہو گا۔‘‘

بھارت میں کم عمر دلہنوں کے لیے امید کی کرن

01:09

This browser does not support the video element.

بھارت کے شمال مشرق میں واقع رياست آسام کی آبادی ميں مسلمانوں کا تناسب چونتيس فيصد ہے۔ يہ ملکی سطح پر کسی ايک رياست ميں مسلم اقليت کا سب سے زيادہ تناسب بنتا ہے۔ رياستی حکومت نے قبل ازيں يہ عنديہ ديا تھا کہ شادی بياہ، طلاق، جائيداد کی تقسيم اور بچوں کو گود لينے جيسے معاملات ميں تازہ اور سب کے ليے يکساں قوانين متعارف کرائے جائيں گے۔

ايک اور بھارتی رياست اتر آکھنڈ ميں بھی رواں سال فروری ميں اسی طرز کے نئے قوانين پر عمل در آمد شروع ہو چکا ہے۔

بھارت ميں ہندو، مسلمان، مسيحی اور ديگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی برادرياں شادی بياہ اور زمين کی ملکيت جيسے امور ميں اپنے سيکولر قوانين پر عمل در آمد کرتی آئی ہيں۔ تاہم وزيراعظم نريندر مودی کی حکومت اس ضمن ميں ايک يونيفارم سول کوڈ متعارف کرانے کا کہتی آئی ہے، يعنی سب کے ليے ايک ہی قانون اور بھارتی مسلمان ایسا کیے جانے کے سخت خلاف ہیں۔

کم عمری ميں شادی سے بچ کر خواب نگر تک کا سفر

04:15

This browser does not support the video element.

ع س / م م (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں