بھارتی ریاست آسام میں دو بیویاں رکھنا قانوناﹰ جرم قرار
28 نومبر 2025
آسام پروہیبیشن آف پولیگیمی بل 2025 کے نام سے بل کی ریاستی اسمبلی سے منظوری کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے کہا کہ ایک سے زائد شادی کو سنگین جرم قراردے دیا گیا ہے، جس کی سزا 10 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
سرما نے کہا،''آپ کا مذہب آپ کو (کثرتِ ازدواج) کی اجازت دے سکتا ہے، مگر ہماری حکومت دوسری یا تیسری شادی کی اجازت نہیں دے گی۔''
انہوں نے تاہم کہا کہ اس قانون کے دائرے سے شیڈولڈ ٹرائب سے تعلق رکھنے والے افراد اور چھٹے شیڈول کے تحت آنے والے علاقوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارتی قانون کے تحت شمال مشرقی ریاستیں آسام، میگھالیہ، تریپورا اور میزورم کے قبائلی علاقے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل ہیں۔
’آسام پروہیبیشن آف پولیگیمی بل‘ کیا ہے؟
اس بل کی دفعات کے تحت، کوئی بھی شخص جو پہلی شادی برقرار ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرتا ہوا قصوروار پایا جائے، اسے سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی شخص جو اپنی موجودہ شادی کو چھپائے اور دوبارہ شادی کرے، اسے 10 سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
اگر کسی گاؤں کا مکھیا یا سرپنچ، قاضی، والدین یا قانونی سرپرست حقائق کو بدنیتی سے چھپائے یا دانستہ طور پر ایسی شادی میں شریک ہو تو اس کے لیے دو سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
کوئی بھی شخص جو جان بوجھ کر اس مجوزہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شادی کروانے میں تعاون کرے، اسے بھی دو سال تک قید یا ڈیڑھ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
مجوزہ قانون میں بار بار جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کے لیے ہر بار جرم پر سزا کو دوگنا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بل کا مقصد متاثرہ خواتین کو معاوضہ فراہم کرنا بھی بتایا گیا ہے، کیونکہ حکومت کے بقول شوہر کی کثیرالازدواجی کے باعث انہیں شدید تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بل کے مطابق، ''کثرتِ ازدواج'' اس عمل کو کہا گیا ہے جس میں کوئی شخص ایسی حالت میں شادی کرے یا شادی شدہ ہو جبکہ کسی بھی ایک فریق کی موجودہ شادی برقرار ہو، یا اس کا شریکِ حیات زندہ ہو اور اس سے نہ تو قانونی طور پر طلاق ہوئی ہو اور نہ ہی ان کی شادی کو کالعدم یا غیر مؤثر قرار دیا گیا ہو۔
یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم
آسام کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ آسام پروہیبیشن آف پولیگیمی بل 2025 ریاست میں نئی قانون سازی کی جانب پہلا قدم ہے، جو اتراکھنڈ اسمبلی کی جانب سے منظور کیے گئے یکساں سول کوڈ بل کے مطابق ہو گا۔ اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی کو آئندہ سال مارچ کے ریاستی انتخابات میں اقتدار ملا تو یکساں سول کوڈ بل پہلی ہی اسمبلی سیشن میں پوری طرح منظور کر لیا جائے گا۔
سرما نے دعویٰ کیا کہ یکساں سول کوڈ کے چار اہم نکات کے تحت کم عمری کی شادی کی روک تھام، کثرتِ ازدواج پر پابندی، وراثتی قوانین اور لیو اِن ریلیشن شپ(جوڑوں کا شادی کیے بغیر ساتھ رہنا) کی رجسٹریشن کا تعلق روایتی رسم و رواج یا طور طریقوں سے نہیں ہے۔
خیال رہے اتراکھنڈ اسمبلی نے گزشتہ سال فروری میں یکساں سول کوڈ کو منظوری دے دی ہے۔
’یہ اقدام سیاسی ہے'
مسلم جماعتوں اور دیگر تنظیموں نے کثرت ازدواج بل کی منظوری پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اس کے محرکات کو سیاسی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل اس لیے لایا گیا تاکہ مذہبی بنیادوں پر ووٹروں کی صف بندی کی جاسکے۔
آسام کی 3 کروڑ 70 لاکھ آبادی میں 34 فیصد مسلمان اور 61.5 فیصد ہندو اور مسیحیوں کی تعداد 3.74 فیصد ہے۔
آسام کرسچن فورم کے ترجمان ایلن بروکس کا کہنا تھا، ''مسلمانوں کی یہاں تعداد خاصی ہے۔ اس لیے یہ (وزیراعلیٰ کا قدم) مذہب کے نام پر بالکل خالص پولرائزیشن ہے۔''
آسام کے ناگون شہر کے ایک رہائشی اشرف علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ کثرتِ ازدواج کے خلاف قانون سے آسام کے مسلمانوں کو کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا، ''ہمارے درمیان کثرتِ ازدواج تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ اس مسئلے کو صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انتخابات سے قبل سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔''
اگرچہ بھارت میں کثرتِ ازدواج پر پابندی ہے لیکن مسلمانوں کے عائلی امور سے متعلق مسلم پرسنل لا (شریعت) اپلیکیشن ایکٹ 1937 کے تحت مسلمان مردوں کو قانونی طور پر چار شادیوں کی اجازت ہے۔
ادارت: شکور رحیم