بھارتی ریاست گجرات میں پٹیل برادری سراپا احتجاج
26 اگست 2015خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ریاست گجرات کی انتظامیہ نے حالات کو قابو میں کرنے کے لیے پہلے سے تعینات نیم فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب کسانوں کے رہنماؤں نے آج بدھ کے روز ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ریاست گجرات کی 63 ملین کی آبادی میں پٹیل برادری تقریباً بیس فیصد بنتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا کاروبار زندگی موسمی کاشتکاری اور چھوٹے پیمانے پر قائم صنعتوں کی وجہ سے چلتا ہے اور بھارت کے زرعی شعبے کی بے اطمینانی اور تیزی سے ہونے والی اقتصادی ترقی کی وجہ سے ان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔
پٹیل برادری کا مطالبہ ہے کہ اس کے لیے بھی اسی طرح کے خصوصی اقدامات کیے جائیں، جیسے کہ ملک کی دیگر اقلیتوں کے لیے کیے گئے ہیں۔ انہیں بھی سرکاری محکموں میں ملازمتوں کے علاوہ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں تک رسائی کی ضمانت دی جائے۔
اے پی کے مطابق گجرات میں حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ انتظامیہ کو منگل کی رات پانچ شہروں میں کرفیو نافذ کرنا پڑ گیا۔ بتایا گیا ہے کہ مشتعل مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا، ان پر لاٹھیوں سے حملے کرنے کے علاوہ سرکاری اور نجی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا۔ اس دوران احمد آباد میں موبائل فون پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تاکہ افواہوں کو پھیلنے سے روکا جا سکے اور کسانوں کی مختلف تنظیموں کا آپس میں ایک دوسرے سے مواصلاتی رابطہ نہ ہو پائے۔
پولیس نے بتایا کہ اس ہنگامہ آرائی میں ابھی تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ منگل کو پٹیل برادری کے مظاہرے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی جبکہ ان کے رہنما ہردِک پٹیل کے اعلان پر آج بدھ کے روز گجرات بھر میں زیادہ تر مقامات پر اسکول، کالج اور دکانیں بند ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بارہ برس تک اس ریاست کے وزیر اعلٰی رہ چکے ہیں۔ مودی کی جانشین خاتون وزیر اعلٰی آنندیبن پٹیل نے اپنی برادری سے پر امن رہنے کی درخواست کی ہے۔
بھارت میں سب سے نچلی سمجھی جانے والی ’دلت‘ ذات کے باشندوں کو صدیوں سے جاری امتیازی رویے سے نجات دلانے اور ملکی زندگی کے مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کئی خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ برسوں کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والی دیگر نچلی ذاتوں کی سماجی محرومیوں کو بھی ختم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔