بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ
23 نومبر 2008ووٹنگ مجموعی طور پر امن رہی لیکن چند جگہوں پر الیکشن مخالف مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔ اس دوران وادی میں کرفیو جیسی صورتحال رہی جس سے عام آدمی کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ گندربال اور راجوری میں ووٹنگ کی شرح ساٹھ فی صد رہی۔
وادی میں راجوری اور گاندر بل کے اضلاع میں ووٹنگ ہوئی جس میں علیحدگی پسند جماعتوں کی طرف سے الیکشن بائیکاٹ اپیل کے باوجود عوام کی خاصی تعداد نے حصہ لیا۔ کئی مقامات پر ووٹروں کی لمبی قطاریں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر نظر آئیں۔ کئی جگہوں پر لوگ پولنگ اسٹیشن کے کھلنے سے پہلے موجود تھے۔
اکثر ووٹروں کا کہنا تھا کہ وہ وادی میں بہتر انتظامیہ لانے کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے من پسند امیدوار جیتیں اور ان کے رزو مرہ کے مسائل حل ہوں۔
گاندربل کے ایک پولنگ مرکز کے باہر کھڑی خاتو ن کا کہنا تھا:’’اپنا نمائندہ چننے کے لیے ووٹ ڈالنا تھا۔ جس کی جو مرضی ہو اس کو ووٹ دے۔ہم اپنے منتخب نمائنے کو بتائیں گے کہ ہماری کیا مانگیں ہیں۔‘‘ ایک اور پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈال کر باہر نکلتے وقت ایک کشمیری نوجوان کا کہنا تھا: ’’ ہم اسی امیدوار کو چنیں گے جو عوام کی رکھوالی کرے گا۔ عوام کے مسائل کا حل تلاش کرے گا۔ اسی امید پر ہم ووٹ ڈالتے ہیں۔‘‘
جہاں اکثر مقامات پر بھاری ووٹنگ درج کی گئی وہیں ضلع گاندر بل کے کئی پولنگ اسٹیشنوں میں الیکشن مخالف مظاہرے بھی کیے گئے۔ ان علاقوں میں ووٹنگ کی شرح کافی کم رہی۔ ایک پولنگ اسٹیشن میں عوامی مزاحمت کے پیش نظر نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ کو وہاں سے فرار ہونا پڑا۔
مظاہرین کے مطابق اگرچہ بھارتی فورسز کی جانب سے زبردستی ووٹ ڈالنے پر زرو نہیں دیا گیا مگر ہند نواز جماعتوں نے پیسوں کا لالچ دے کر لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’ہم آزادی چاہتے ہیں اور کچھ نہیں ۔ یہاں لوگوں کو پانچ سو روپے اور کرتا پاجاما دینے کا لالچ بھی دیا گیا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے۔‘‘خیال رہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ریاستی اسمبلی انتخابات سات مرحلوں میں کیے جارہے ہیں۔