اقوام متحدہ سے منسلک دو اعلیٰ عہدیداروں نے زور دیا ہے کہ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا پرعائد پابندیوں کو ختم کر دیا جائے۔ ان کے مطابق ان پابندیوں سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی نے اقوام متحدہ سے وابستہ ڈیوڈ کائے اور مچل فروسٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور موبائل انٹرنیٹ سروس پر پابندی تمام کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے نامناسب ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی مندوب مچل فروسٹ اور خصوصی مندوب برائے آزادی رائے و اظہار ڈیوڈ کائے نے جنیوا سے جاری کردہ اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت کو کشمیر میں اس پابندی کو ختم کر دینا چاہیے۔
کائے کے بقول اس طرح کے اقدامات آزادی رائے کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کی یہ پابندی دراصل کشمیر میں نقص امن کی صورتحال کے تناظر میں لگائی گئی ہے۔
نئی دہلی کا کہنا ہے کہ کشمیری مظاہرین سماجی رابطوں کی انہی ویب سائٹس کے ذریعے حکومت مخالف مظاہروں کا اہتمام کرتے ہیں اور اس پابندی کا مقصد ایسے غیر قانونی اجتماعات کو روکنا ہے۔
بھارتی حکام نے سماجی رابطوں کی بائیس ویب سائٹس پر پاپندی کے علاوہ موبائل فون کی تھری جی اور فور جی سروس کو بھی ایک ماہ کے بند کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ پابندی چھبیس اپریل کو عائد کی تھی تاہم اس کے مکمل اطلاق کے لیے متعلقہ ماہرین کو تین دن کی انتھک محنت کرنا پڑی۔ امریکی نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اس پابندی کے باوجود کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
دوسری طرف کشمیر کے متنازعہ علاقے میں پاکستان اور بھارتی فورسز کے مابین فائرنگ کے تازہ واقعے میں دو افراد مارے گئے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ ایک شخص پاکستانی زیر انتظام جبکہ دوسرا بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہلاک ہوا ہے۔
بھارتی فوج کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کا آغاز کیا، جس کے جواب میں بھارتی فورسز نے بھی فائرنگ کی۔ دوسری طرف پاکستان نے بھارتی فورسز پر پہل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔