بدھ کے روز بھارت کے دوسرے سب سے بڑے سرکاری بینک نے انکشاف کیا ہے کہ اس کی ایک شاخ سے تقریبا 1.8 ارب ڈالر کی دھوکہ دہی کی گئی ہے۔
اشتہار
'پنجاب نیشنل بینک' کے مطابق 1.77 ارب ڈالر کی یہ رقم چند کھاتے داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے منتقل کی گئی تھی۔ دھوکہ دہی کا یہ واقعہ بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی کی اس بینک کی ایک شاخ پیش آیا ہے۔ بینک کی جانب سے فراڈ کی مزید تحقیقات کے لیے متعلقہ اداروں سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔
تاہم پنجاب نیشنل بینک نے مشتبہ کھاتے داروں کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔
بلومبرگ نیوز کے مطابق غیر قانونی طور پور منتقل کی گئی یہ رقم اس بینک کی گزشتہ سال کی آمدنی سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ممبئی سٹاک ایکسچینج میں بینک کے شیئرز سات اعشاریہ پینتالیس فیصد گر گئے ہیں۔
یہ خبر اس موقع پر سامنے آئی ہے جب بھارتی حکومت کی جانب سے مشکلات کے شکار قرض دہنندگان پر سے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ مودی حکومت نے حال ہی میں سرکاری بینکوں کے ریکارڈ میں موجود بدعنوانی کو درست کرنے کے لیے بتیس ارب ڈالرکے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
دہلی کے ہائیڈ پارک ’جنتر منتر‘ میں دلچسپ اور منفرد احتجاج
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں جنتر منتر کا مقام تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نا انصافی کے خلاف احتجاج کے لیے ’ہائیڈ پارک‘ جیسی فضا فراہم کرتا ہے۔ تاہم اب وہاں ایسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
تصویر: DW/M.Krishnan
دہلی ميں ’بغاوت کی نمائندگی‘
جنتر منتر کے مقام نے اس وقت بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی جب سوشل ایکٹیوسٹ انا ہزارے نے سن 2011 میں بدعنوانی کے خلاف یہاں دھرنا دیا تھا۔ بعد ازاں سن 2012 میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف بھی يہ احتجاج کا مرکز بنا رہا۔
تصویر: DW/M. Krishnan
شراب پر پابندی کا مطالبہ
جنتر منتر محض بڑے پیمانے پر احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کا ہی مرکز نہیں ہے۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ڈیوڈ راج تن تنہا ہی ملک بھر میں شراب پر پابندی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.Krishnan
’’ وزیر اعظم مودی، کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟‘‘
گزشتہ ہفتے ملک کے سرکاری گرین ٹریبونل نے حکم دیا کہ اس احتجاجی مقام کو مظاہرین کے لیے بند کرتے ہوئے وسطی دہلی میں ایک دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے کیونکہ مظاہرین کا شور وہاں کے رہنے والوں کے لیے تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی سے شادی کی خواہشمند چالیس سالہ خاتون اوم شانتی شرما کو بھی اپنا احتجاج دوسری جگہ منتقل کرنا ہو گا۔
تصویر: DW/M.Krishnan
بارہ سال سے ’مردہ‘
چھتیس سالہ ستوش مورت سنگھ کا مسئلہ بہت منفرد ہے جسے وہ جنتر منتر میں لے کر آئے ہیں۔ انہیں اُن کے دفتر والے بارہ سال پہلے مردہ قرار دے چکے ہیں اور اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کی تمام جائيداد اُن کے رشتہ داروں نے بیچ ڈالی۔ ’میں زندہ ہوں‘ کا بینر اٹھائے ہوئے سنگھ میڈیا کی توجہ اپنے مسئلے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/M.Krishnan
گاندھی جی کے پیروکار
بھارت کی آزادی کے بڑے رہنما گاندھی جی کے دو سال سے زائد عرصے سے یہ دو پیروکار یہاں گائے کے ذبیحے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان دونوں کا مطالبہ ہے کہ گائے کے گوشت سے بنے کھانوں پر پابندی عائد کی جائے۔
تصویر: DW/M.Krishnan
آپ یہاں رہ بھی سکتے ہیں
سرکاری نوکری سے نکال دیے جانے والے ہنوماتھپا ایک سال سے یہاں اپنے بقایا جات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہنوما تھپا نے احتجاجاﹰ اپنا بوریا بستر بھی ایک سال سے یہیں لگا رکھا ہے۔
تصویر: DW/M.Krishnan
گرو اور اُن کے چیلے
بابا رام پال کے چیلے یا مرید یہاں دو سال سے ڈیرہ دالے ہوئے ہیں اور اپنے گرو کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دھرم گرو رام پال کو سن دو ہزار چودہ میں ملک سے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔