بھارت کے تاریخی مقامات کی سیاحت پر گئے ہوئے ایک جرمن سیاح کو مبینہ حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حملے میں جرمن شہری کو معمولی زخم آئے ہیں۔ پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے۔
اشتہار
بھارتی پولیس نے ایک جرمن شہری پر کیے گئے مبینہ حملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ پولیس نے اس واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں بھارتی ریلوے کے ایک ملازم کو شامل تفتیش کیا ہے۔ اس ملازم کا نام امن یادیو بتایا گیا ہے۔ جرمن شہری سون بھدرا میں واقع ایک تاریخی قلعے کو دیکھنے گیا تھا۔
مشتبہ شخص امن یادیو نے پولیس کو بتایا کہ اس نے ریل گاڑی سے اترنے والے جرمن شہری کا خیر مقدم کیا تو اُس نے جواباً اُس پر حملہ کر دیا۔ پولیس کے مطابق دونوں افراد میں امکاناً غلط فہمی اور زبان کی ناسمجھی پر جھگڑا ہوا ہے۔ اس جھگڑے میں جرمن شہری اور بھارتی ریلوے کا ملازم معمولی زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق دونوں اشخاص دست و گریبان ہونے کے ساتھ ایک دوسرے پر مکوں کے وار بھی کیے۔
ریلوے پولیس کے سینیئر افسر پی کے مشرا نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ حالات و واقعات اور فریقین کے بیانات کی روشنی میں چھان بین کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ جب مقامی میڈیا نے جرمن شہری سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس واقعے پر کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ضلعی پولیس کے سربراہ رام پرتاپ سنگھ نے تصدیق کی ہے کہ جرمن شہری اور ریلوے ملازم کی جانب سے علیحدہ علیحدہ رپورٹ درج کرائی گئی ہے اور ان کا ضابطہٴ فوجداری کی روشنی میں جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں دونوں نے ایک دوسرے پر پہلے حملہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اترپردیش کے ضلع سون بھدرا کے قریب ہی فتح پورسیکری میں دو ہفتے قبل ایک سوس جوڑے پر چند افراد نے لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کیا تھا۔ فتح پور سیکری مشہور تاریخی مقام تاج محل کا قریبی شہر ہے۔
جرمن شہری پر حملہ بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع سون بھدرا کے ریلوے اسٹیشن پر ہوا ہے۔ سون بھدرا اتر پردیش کا دوسرا بڑا ضلع ہے اور چار دوسری ریاستوں چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ، مدھیہ پریش اور بہار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس باعث یہ سارے بھارت میں اسٹریٹیجیک نوعیت کا ضلع تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے پُر کشش سیاحتی مقامات
پاکستان کے پُر کشش سیاحتی مقامات
تصویر: DW/Danish Babar
خوش گوار موسم اور فطری حسن
پاکستان کے شمالی علاقے فطری حسن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے کافی اونچائی کی وجہ سے ان علاقوں میں گرمیوں کے دوران موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر سے لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
سیاحت میں اضافہ
ماضی قریب میں ناسازگار حالات، شدت پسندی کے واقعات اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت کم لوگ ان خوبصورت علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ تاہم محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کے مطابق رواں سال لگ بھگ سات لاکھ سیاح ان علاقوں میں آئے۔
تصویر: DW/Danish Babar
دشوار گزار مقامات کے لیے جیپوں کا استعمال
ناران، کاغان، شوگران، کالام اور اپر دیر کے پہاڑی علاقوں تک پہنچنے کے لیے سیاح جیپ اور دیگر فور وہیل گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ پہاڑی اور خراب سڑکوں کی وجہ سے عام چھوٹی گاڑیوں کی مدد سے ان علاقوں تک کا سفر مشکل ہوسکتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
چھٹیوں کے دوران سیاحوں کی تعداد میں اضافہ
پاکستان کے بیشتر علاقوں میں جون، جولائی کے مہینوں میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس موسم اور خصوصاﹰ مذہبی تہواروں اور قومی چھٹیوں کے دنوں میں ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں شہری ملک کے شمال میں واقع پر فضا مقامات پر تفریح کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
قدرتی چشمے اور گلیشیئرز
ناران اور کاغان کے سفر کے دوران اکثرمقامات پر راستے میں قدرتی چشمے اور گلیشئرز کا پانی بہتا نظر آتا ہے۔ مقامی دکاندار اس پانی کو مشروبات کو ٹھنڈا کرنے کے بھی استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹراؤٹ مچھلی ایک نعمت
شمالی علاقوں کے دریاؤں میں موجود ٹراؤٹ مچھلی سیاحوں اور مقامی مچھیروں دونوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ عبداللہ کے مطابق تیز بہنے والے ٹھنڈے پانی میں ٹراؤٹ کا شکار کسی خطرے سے خالی نہیں۔ سیاحوں کو یہ مچھلی دو سے ڈھائی ہزار روپے فی کلو فروخت کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
لذیز ٹراؤٹ مچھلی
ٹراؤٹ کی افزائش کے لیے انتہائی ٹھنڈا پانی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ناران میں گلیشئرز کا پانی ان کے افزائش نسل کے لیے کافی موزوں ہے لہٰذا مقامی لوگوں نے ٹراؤٹ کے فارمز بھی بنا رکھے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹینٹ ویلیجز
ناران اور کاغان میں انتظامیہ نے رش کے دنوں میں سیاحوں کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹینٹ ویلیجز یا خیمہ بستیاں بھی قائم کی ہیں جہاں مناسب قیمت میں سیاحوں کو قیام کے لیے اچھی جگہ مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
’سیاحت تازہ دم کر دیتی ہے‘
سیالکوٹ کے رہائشی محمد عاصم پورے خاندان کے ساتھ چھٹیاں منانے وادی کاغان آئے۔ ان کے بقول، ’’یہ ایک پرسکون جگہ ہے۔ تازہ دم ہونے کے لیے ان علاقوں کی سیر بہت ضروری ہے۔‘‘
تصویر: DW/Danish Babar
وادی کاغان کا علاقہ شوگران
وادی کاغان کے علاقہ شوگران میں پھیلے سر سبز گھاس کے لان (چمن) سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے قریب 2362میٹر کی بلندی پر واقع یہ وادی دلفریب نظاروں کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
جھیل سیف الملوک اور پریوں کی داستانیں
وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع جھیل سیف الملوک کسی عجوبے سے کم نہیں۔ سردیوں میں اس جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ پریوں کی داستانوں کی وجہ سے مشہور یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباﹰ 3240 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
آنسو جھیل تک سفر گھوڑے یا خچر کے ذریعے ہی ممکن
سالہاسال برف جمی رہنے کی وجہ سے ناران کے اکثر علاقوں میں لوگ گھوڑوں یا پھر خچروں کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے سیف الملوک جھیل سے آنسو جھیل تک کا گھوڑوں پر چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کافی پرلطف ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
آبشاروں کا سحر
شمالی علاقوں میں جہاں دریاؤں کا شور لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے تو دوسری جانب بلندوبالا پہاڑوں سے گرتیں قدرتی آبشاریں بھی سیاحوں کے لیے کسی سحرسے کم نہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
برفباری کے سبب ناقابل رسائی
پاکستان کے شمال علاقوں میں اکثر سیاحتی مقامات سردیوں میں شدید برف باری کی وجہ سے قریب آٹھ ماہ تک نقل حرکت کے قابل نہیں رہتے۔ اور اسی باعث سردیوں میں سیاحوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ۔ مقامی لوگ سردیوں کے دوران عارضی دکانوں کو بند کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹورازم کے فروغ کے لیے فنڈز مختص
خیبرپختونخوا میں ٹورازم کے فروع اور ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ناران، کاغان، شوگران اور صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات کی ترقی اور خوبصورتی کے لیے خاطرخوا فنڈز مختص کیے ہیں۔