بھارتی سیکیورٹی فورسز لال گڑھ میں داخل
21 جون 2009ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستے CRPF کے اہلکاروں کے اس آپریشن کا مقصد لال گڑھ کو مسلح نکسل باغیوں سے خالی کرانا ہے۔سی آر پی ایف اور مغربی بنگال کے پولیس اہلکار ہفتے کو لال گڑھ کے پولیس اسٹیشن میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور اس دوران باغیوں کی طرف سے کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
پولیس حکام نے کہا کہ لال گڑھ میں مسلح ماوٴ نواز باغیوں اور اس علاقے میں ان کے حامیوں کے خلاف جاری آپریشن میں شدت لائی جائے گی۔ سینٹرل ریزرو پولیس فورس یعنی CRPF کے کمانڈر پروین کمار نے ایک ٹیلی ویژن بریفنگ میں کہا کہ لال گڑھ میں قانون کی بالادستی کے قیام تک کارروائی جاری رکھی جائے گی۔
’’ہم اپنا کام اور مشن مکمل کریں گے۔ لال گڑھ میں قانون کا بول بولا ہوگا تاکہ یہاں کے لوگ کسی ڈر یا خوف کے بغیر اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ ہمیں قانون پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔‘‘
کمانڈر پروین کمار نے مزید کہا کہ تاحال کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔لال گڑھ کا علاقہ ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ کے شمال میں تقریباً دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ریاست مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹاچاریہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ماوٴ نواز باغیوں پر مکمل پابندی عائد کرنے پر غور کررہے ہیں جبکہ ترینمول کاگریس کی سربراہ ممتا بینرجی نے کہا کہ مسلح نکسلیوں کا ان کی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
جمعہ کو بھارتی حکومت نے مسلح نکسلیوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا اور ساتھ ہی مذاکرات کی میز پر آنے کی پیشکش بھی کی تھی تاہم باغیوں نے کسی مثبت ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
بھارتی وزیر داخلہ پالانیپپن چدم برم نے جمعہ کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں مغربی بنگال حکومت کی جانب سے باغیوں کو مذاکرات کی پیشکش کرنے کے اقدام کی حمایت کی۔ چدم برم نے کہا کہ وفاقی حکومت باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ریاستی حکومت کے فیصلے کو صحیح سمجھتی ہے۔ وزیر داخلہ نے تاہم کہا کہ فی الحال آپریشن منصوبے کے مطابق جارہا ہے۔
لال گڑھ آپریشن میں ریاستی پولیس اور CRPF کے تقریباً پندرہ سو اہلکار حصّہ لے رہے ہیں۔
ماؤ نوازوں نے کچھ روز قبل لال گڑھ علاقے کو حکومتی کنٹرول سے ’’آزاد‘‘ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس دعوے کے بعد فوراً ہی ریاستی حکومت حرکت میں آگئی اور یوں باغیوں کے خلاف آپریشن کا حکم دے دیا گیا۔
محتاط اندازوں کے مطابق لال گڑھ میں تقریباً دو سو مسلح ماوٴ نواز باغی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی طور پر چار سو افراد کو ہتھیاروں کی تربیت دی گئی ہے۔
بھارتی روزنامے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق لال گڑھ کے تقریباً ایک ہزار باشندے لاٹھیوں اور تلواروں کے ساتھ مسلح باغیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق لال گڑھ کے علاقے میں مسلح نکسلیوں کو زبردست حمایت حاصل ہے اور اس لئے سیکیورٹی فورسز کو آپریشن میں شدید دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔
بعض بھارتی نجی ٹیلی ویژن نیوز چینلز کی رپورٹوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ باغی شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ باغیوں نے اپنی پرتشّدد کارروائیوں میں اب تک حکمران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ CPI (M) کے دس کارکنوں کو ہلاک کردینے کے علاوہ کئی پارٹی دفاتر اور پولیس اسٹیشنز کو نذر آتش کردیا ہے۔
بھارت کی تقریباً تیرہ ریاستوں میں مسلح نکسلی سرگرم عمل ہیں۔ مغربی بنگال کے علاوہ ان ریاستوں میں اڑیسہ، بہار اور آندھراپردیش بھی شامل ہیں۔
جنوری 2005ء سے اب تک مسلح نکسلیوں کی پرتشّدد کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد باغیوں سمیت کم از کم تین ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نکسلیوں کی کارروائیوں کو ملک کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج قرار دے چکے ہیں۔