1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی شہریوں کو فی الحال جرمنی آنے کی اجازت نہیں، جرمن سفیر

جاوید اختر، نئی دہلی
2 جولائی 2021

بھارت میں تعینات جرمن سفیر نے بالواسطہ طور پر کہا ہے کہ بھارتی شہریوں کے جرمنی آنے پر فی الحال پابندی عائد رہے گی اور حالات بہتر ہونے کے بعد ہی بعض سفری پابندیاں ختم کی جا سکیں گی۔

Walter Lindner Ebola-Beauftragter der Bundesregierung
بھارت میں جرمنی کے سفیر والٹر لِنڈنرتصویر: picture-alliance/Tagesspiegel

ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت میں جرمنی کے سفیر والٹر لِنڈنر کا کہنا تھا کہ جب سفری پابندیاں ختم ہوجائیں گی، ''تب ہم ان بھارتیوں کا اور بالخصوص طلبہ کا، جو ہماری بین الاقوامی برداری کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں،جرمنی میں ایک بار پھر خیر مقدم کریں گے جنہوں نے کووڈ کے دونوں ٹیکے لگوا لیے ہوں گے۔‘‘

جرمن سفیر کا کہنا تھا، ”بیشتر ممالک کورونا وائرس کی نئی قسم سے خوف زدہ ہیں۔ اور خود بھارت بھی کسی دوسرے ملک سے اپنے ہاں کورونا کی کسی بھی نئی قسم کو پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے بیشتر یورپی ممالک نے بعض سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔"

 اب جرمنی سمیت سات یورپی ملکوں نے 'کووی شیلڈ‘ کے مؤثر ہونے کو تسلیم کر لیا ہےتصویر: Mayank Makhija/NurPhoto/picture alliance

’کووی شیلڈ کوئی انٹری کارڈ نہیں ہے‘

جب جرمن سفیر سے پوچھا گیا کہ جو لوگ 'کووی شیلڈ‘ ویکسین لگوا چکے ہیں، آیا انہیں بھی جرمنی میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی حالانکہ اب جرمنی سمیت سات یورپی ملکوں نے 'کووی شیلڈ‘ کے مؤثر ہونے کو تسلیم بھی کر لیا ہے، تو والٹر لِنڈنر نے کہا کہ جن لوگوں نے کووی شیلڈ ویکسین لگوائی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں اب جرمنی میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی ہے۔ سفر پر اب بھی پابندی ہے۔ جو بھارتی سفر کرنا چاہتے ہیں وہ کووی شیلڈ لگوا کر اسے اینٹی کووڈ ویکسینیشن کے ثبوت کے طور پر پیش کر کے یورپ کا سفر کر سکتے ہیں۔ ”لیکن یہ کوئی انٹری کارڈ نہیں ہے۔ سفری پابندیاں اب بھی برقرار ہیں۔"

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی میڈیسن ایجنسی نے بھارت میں لگائی جانے والی کوویکسن اور کووی شیلڈ نامی دونوں ویکسینز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وجہ سے یورپی ملکو ں کا سفر کرنے والے بھارتیوں کے لیے نئی مشکلات پیدا ہو گئی تھیں۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اب جرمنی کے علاوہ چھ دیگر یورپی ممالک آسٹریا، سلووینیا، یونان، آئرلینڈ اور اسپین نے بھی کووی شیلڈ کو تسلیم کر لیا ہے۔

کورونا وائرس کی نئی بھارتی قسم، برطانیہ جرمنی کے لیے خطرہ؟

 بھارتی ویکسین یورپی یونین کے ملکوں میں تسلیم نہیں

جرمن سفیر نے امید ظاہر کی کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے، ”مجھے امید ہے کہ سفر کا سلسلہ جلد ہی بحال ہو جائے گا۔ جرمنی اور یورپ میں اس وقت تیسری لہر ہے جبکہ بھارت میں بھی اس کا خدشہ ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔"

والٹر لِنڈنر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی حکومت نے کورونا وائرس کے بحران سے اچھی طرح نمٹنے کی کوشش کی ہے تاہم اسے ممکنہ تیسری لہر کے لیے زیادہ بہتر طور پر تیار رہنا چاہیے۔

اس وقت جرمنی میں تقریباً پچیس ہزار بھارتی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیںتصویر: Matthias Schrader/AP/picture alliance

بھارتی طلبہ زیادہ پریشان

سفری پابندیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان وہ بھارتی طلبہ ہیں، جو جرمنی کی کسی نہ کسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ جرمنی میں بھارتی طلبہ کی بہت بڑی تعداد ہے اور جرمن ادارے ڈی اے اے ڈی کے مطابق اس تعداد میں گزشتہ برس بیس فیصد اضافہ ہوا تھا۔

بھارت میں جرمنی کے سفیر کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ بڑی تعداد میں بھارتی طلبہ جرمنی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہاں کا تعلیمی نظام بہت اچھا اور مفت بھی ہے۔

کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

انہوں نے کہا، ”اس وقت جرمنی میں تقریباً پچیس ہزار بھارتی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو کسی بھی یورپی ملک حتیٰ کہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی طلبہ کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ بعض طلبہ تعلیم شروع کرنے سے قبل ہی بھارت میں پھنس گئے۔‘‘

جرمن سفیر نے بتایا، ”ہم نے آج سے ہی طلبہ کے لیے اپنے ویزا سیکشن کھول دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جب سفری پابندیاں ختم ہوں، تو ان کے لیے آگے جانے کا عمل زیادہ آسان رہے۔"

جرمن سفیر کا کہنا تھا، ”بھارت میں فروری، مارچ اور اپریل میں جو مناظر ہم نے دیکھے ہیں، وہ یقیناً بہت بھیانک تھےتصویر: Diptendu Dutta/AFP

کووڈ کے حوالے سے بھارت کے بارے میں رائے

جب جرمن سفیر سے پوچھا گیا کہ بھارت نے اب تک کووڈ سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں، تو والٹر لِنڈنر نے کہا کہ ایک غیر ملکی سفیر کے طور پر حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرنا ان کے لیے مناسب نہیں ہو گا۔ ”تاہم میں سمجھتا ہوں کہ بھارت ایک براعظم کی مانند ہے اور یہاں چیلنجز بھی بہت سے ہیں۔ غربت ہے، مختلف طرح کے مقامات ہیں، صفائی ستھرائی کا معاملہ ہے۔ آپ ممبئی میں کسی کچی بستی میں سوشل ڈسٹنسنگ یا صفائی ستھرائی کے پیمانے پر پورا اترنے کے بار ے میں کیسے سوچ سکتے ہیں؟"

کورونا:غیر ملکی امداد کی پہلی کھیپ بھارت پہنچ گئی

جرمن سفیر کا کہنا تھا، ”بھارت میں چیلنجز انتہائی مختلف نوعیت کے ہیں اور دوسرے ملکوں سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت نے بلاشبہ بہت اچھا کام کیا ہے لیکن فروری، مارچ اور اپریل میں جو مناظر ہم نے دیکھے ہیں، وہ یقیناً بہت بھیانک تھے۔ کوئی بھی ایسے مناظردیکھنا نہیں چاہے گا۔"

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں