1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی شہریوں کے لیے ویکیسن کی ایک ارب خوراکوں کا سنگ میل

جاوید اختر، نئی دہلی
19 اکتوبر 2021

بھارت کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے کووڈ ویکسین کی ایک ارب خوراکیں فراہم کرنے کا سنگ میل عبور کر لیا جائے گا لیکن تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ آبادی میں سے صرف بیس فیصد کو ہی دونوں ٹیکے لگائے گئے ہیں۔

Indien | Covid-19 Impfungen in den Himalaya-Dörfern
تصویر: Adnan Abidi/REUTERS

بھارت رواں ہفتےکووڈ انیس ویکسین کے ایک ارب ٹیکے لگانے کا سنگِ میل عبور کر لے گا۔ لیکن ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں دونوں ٹیکے لگوانے اور صرف ایک ٹیکہ لگانے والے افراد کی تعداد کے درمیان، جو تفاوت پائی جاتی ہے، اس نے ویکسینیشن کے حکومتی دعوؤں اور اس کی افادیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

صرف بیس فیصد افراد کی مکمل ویکسینیشن

حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین روز قبل یعنی سولہ اکتوبر تک بھارت میں کووڈ ویکسین کے ستانوے کروڑ  ساٹھ لاکھ ٹیکے لگائے جا چکے تھے۔ لیکن بلوم برگ کے ویکسنیشن ٹریکر کے مطابق تقریباﹰ ایک ارب چالیس کروڑ آبادی والے بھارت میں صرف بیس فیصد افراد کو ہی کووڈ انیس کے دونوں ٹیکے لگائے جا سکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اکاون فیصد بھارتی شہریوں کو کووڈ ویکسین کا اب تک صرف ایک ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ اگر دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں کا موازنہ کیا جائے تو اس لحاظ سے بھارت کے پڑوسی ملک چین میں ستمبر تک ایک ارب پانچ کروڑ سے زیادہ افراد یعنی تقریباً پچھہتر فیصد آبادی کووڈ ویکسین کے دونوں ٹیکے لگوا چکی تھی۔

لوگوں میں ویکسینیشن کے حوالے سے جوش و خروش کم ہو گیا ہےتصویر: Francis Mascarenhas/REUTERS

ویکسینیشن میں عدم دلچسپی

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بھارت میں کووڈ انیس کے دونوں ٹیکے لگوانے کے حوالے سے لوگوں میں عدم دلچسپی کے متعدد اسباب ہیں۔ حالانکہ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے بھارت امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور اس سال کے اوائل میں بھارت میں جتنی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں، اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ کورونا کے نئے کیسز کم ہو رہے ہیں، تو لوگوں میں ویکسینیشن کے حوالے سے دلچسپی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی جانے والی ویکسین کی پہلی خوراک لینے کے بعد لوگ مختلف شہروں میں اپنی ملازمتوں پر واپس لوٹ گئے تھے تاہم دوسرا ٹیکہ لگوانے کے لیے سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

بھارت کی ملکی ساختہ ایک اور ویکسین، ہنگامی استعمال کے لیے منظور

وبائی امراض کے ماہر برائن واہل کا کہنا تھا،”چونکہ اب نئے کیسز بہت کم ہو گئے ہیں، اس لیے لوگوں میں ویکسینیشن کے حوالے سے جوش و خروش اور اس کی ضرورت کا احساس بھی کم ہو گیا ہے۔"

ماہرین صحت کے مطابق ایک اور وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں ویکسین کے حوالے سے اب بھی جھجھک اور شک و شبہات موجود ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی ریاستی حکومتوں نے مفت اناج جیسے عوامی بہبود کے دیگر پروگراموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ویکسینیشن کی پہلی ڈوز کے سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا تھا لیکن دوسری ڈوز کو اس طرح کی کسی شرط سے منسلک نہیں کیا گیا۔

برائن واہل کا کہنا تھا کہ حکومتی اہلکار لوگوں کو دوسری ڈوز کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن  انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

بھارت کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے حال ہی میں سات سے گیارہ برس کی عمر کے بچوں پر ویکسین کے تجربات کی اجازت دی ہےتصویر: Pfizer/AP Photo/picture alliance

چالیس فیصد آبادی اب بھی دور

بھارت کی تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ آبادی میں سے اٹھارہ برس سے کم عمر افراد کی تعداد لگ بھگ چالیس فیصد ہے۔ حکومت نے اتنی بڑی آبادی کے لیے ویکسینیشن کا ابھی تک کوئی واضح پروگرام نہیں بنایا ہے۔ بھارت کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے حال ہی میں سات سے گیارہ برس کی عمر کے بچوں پر ویکسین کے تجربات کی اجازت دی ہے جبکہ بارہ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں پر تجربات چل رہے ہیں۔

کیا بھارت کی ویکسین سفارت کاری خود اس کے گلے پڑگئی ہے؟

نریندر مودی حکومت نے رواں برس کے اواخر تک ملک کی تمام بالغ آبادی کی مکمل ویکسینیشن کا ہدف مقرر کر رکھا ہے تاہم موجودہ حالات میں اس ہدف کو حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

بھارت میں کووڈ ویکسینیشن نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں بلاشبہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ مئی اور جون میں، جہاں متاثرین کی یومیہ تعداد چار لاکھ سے زیادہ پہنچ گئی تھی، وہیں اب گزشتہ دس دنوں سے یہ بیس ہزار سے بھی نیچے ہے۔ ماہرین کے مطابق گو کہ ویکسینیشن کورونا وائرس سے پوری طرح محفوظ ہو جانے کی ضمانت تو نہیں ہے تاہم ویکسینیشن کے بعداس وبا سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں