بھارتی فضائی کمپنی انڈیگو کے ایک مسافر بردار طیارے کو ایمرجنسی میڈیکل لینڈنگ کے طور پر کراچی ہوائی اڈے پر اتارا گیا۔ 67 سالہ مسافر تاہم جہاز میں ہی انتقال کرچکے تھے۔
اشتہار
شارجہ سے بھارتی شہر لکھنؤ جانے والے پرائیوٹ انڈیگو ایئرلائن کے ایک طیارے پر سوار ایک مسافر کی منگل کوعلی الصبح طبیعت خراب ہونے پر جہاز کو ہنگامی طورپر کراچی ہوائی اڈے پر اتارا گیا۔ لیکن 67 سالہ مسافر ہنگامی طبی امداد دیے جانے سے قبل ہی جہاز پر انتقال کرچکے تھے۔
ادھر دہلی میں انڈیگو کے عہدیداروں نے بتایا کہ جہاز اب لکھنؤ پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے 67 سالہ مسافر حبیب الرحمان کی موت پر ان کے رشتہ داروں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان سول ایوی ایشن کے ذرائع کے مطابق انڈیگو ایئرلائن کی فلائٹ نمبر آئی جی او 1412 کے کپتان نے ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کرکے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جہاز کو کراچی ایئر پورٹ پر اتارنے کی اجازت مانگی۔ سول ایوی ایشن کے حکام نے انہیں طیارہ اتارنے کی اجازت دے دی جس کے بعد طیارہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر صبح ساڑھے پانچ بجے لینڈ ہوا۔
پاکستانی سول ایوی ایشن کے ذرائع کے مطابق طبی امداد دیے جانے سے پہلے ہی حبیب الرحمان انتقال کرچکے تھے۔ پاکستانی میڈیکل ٹیم کا کہنا تھا کہ مسافر کی موت دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوئی۔
ڈاکٹر کی جانب سے مسافر کی موت کی تصدیق اور دستاویزی اور دیگر ضروری اقدامات کے بعد طیارہ صبح ساڑھے آٹھ بجے کراچی سے بھارتی شہر احمد آباد کے لیے روانہ ہوا اور نئی دہلی میں حکام کے مطابق یہ اب اپنی منزل لکھنؤ پہنچ چکا ہے۔
مستقبل کے کم خرچ اور تیز رفتار طیارے
مستقبل میں ایندھن کے حوالے سے کم خرچ ہوائی جہازوں کی ضرورت ہو گی۔ اس شعبے کے ماہرین ان جہازوں کی ساخت اور ہیئت کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہیں۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
کم سے کم مزاحمت
ماہرین کے بقول ہوائی جہاز کا صحیح ڈیزائن ہی ایندھن کی بچت میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس نظریے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جرمنی میں فضائی اور خلائی سفر کے ادارے نے ایک blended-wing-body بنائی ہے۔ اس میں کیبن اور پروں کو آپس میں ضم کر دیا گیا ہے۔ یہ ڈیزائن دوران پرواز کم سے کم مزاحمت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
تصویر: DLR
زہریلی گیسوں کے اخراج کے بغیر فضائی سفر
دنیا بھر میں فضائی آمد و رفت ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تین فیصد اخراج کا سبب بنتی ہے۔ یہ شرح یورپی کمیشن کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یورپی کمیشن نے اس شرح میں 2050ء تک ایک تہائی تک کی کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ تصویر میں بجلی سے اڑنے والا یہ تصوراتی ہوائی جہاز اس ہدف کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
طاقت ور برقی انجن
برقی طیاروں کو زمین سے فضا میں انتہائی طاقت ور انجنوں کی مدد سے ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔ ان انجنوں میں کیبلز اور وائرنگ بجلی کی فراہمی میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی پیدا نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے لیے بیٹریوں کا وزن آج کل کے مقابلےمیں کم کرنا پڑے گا۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
جیٹ انجنوں کے بجائے بڑے بڑے پروپیلر
جدید طاقتور انجنوں کے مقابلے میں روٹرز یا گھومنے والے آلے زیادہ کارآمد ہیں۔ یہ بالکل ایک ٹربائن یا پروپیلر کی طرح کام کرتے ہیں۔ تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ اس طرح ایندھن کی مزید بیس فیصد تک بچت کی جا سکتی ہے۔ ان روٹرز کا قطر پانچ میٹر تک بنتا ہے۔
تصویر: DLR
کم خرچ لیکن پرشور
بہتر ہو گا کہ ان کھلے ہوئے روٹرز کو جہاز کے پچھلے حصے میں نصب کیا جائے۔ ایندھن کی بچت کے ساتھ ساتھ ایسے جہازوں میں سفر کرنا آج کل کے مقابلے میں قدرے سست رفتار ہو گا۔ یعنی عام ہوائی جہاز میں جو فاصلہ دو گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے ، اس کے لیے اس جہاز میں سوا دو گھنٹے لگیں گے۔ ایک نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کھلے ہوئے روٹرز بہت زیادہ شور کا باعث بنیں گے۔
تصویر: DLR
ایندھن کی بچت کا بہترین ذریعہ
کفایت شعاری کے حوالے سے مستقبل کے مناسب ترین ہوائی جہاز کے پر بہت لمبے ہوں گے، یہ جسامت میں پتلا ہو گا اور اس میں بجلی سے چلنے والے انجن نصب ہوں گے۔ بیرتراں پیکارڈ اور آندرے بورشبرگ نے Solar-Impulse نامی ہوائی جہاز تخلیق کر کے یہ بات ثابت کر دی۔ تاہم یہ جہاز بہت کم وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ صرف ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔
تصویر: Reuters
بند ہو جانے والے وِنگ
پتلے اور طویل وِنگ ایرو ڈائنامکس کے لیے بہت کارآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح ایندھن کی بھی بچت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شمسی توانائی سے چلنے والے اس جہاز کے پر 63 میٹر لمبے ہیں۔ تاہم ایسے ہوائی جہاز ہر ہوائی اڈے پر نہیں اتر سکتے۔ اس مسئلے کا حل ’بند ہو جانے والے وِنگ‘ ہیں۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
دو منزلہ ہوائی جہاز
’باکس وِنگ‘ نامی اس جہاز کے پچھلے حصے میں بڑے بڑے پروپیلر یا پنکھے نصب کیے گئے ہیں اور اس کے پر انتہائی پتلے ہیں۔ اس ڈبل ڈیکر یا دو منزلہ ہوائی جہاز کا ڈیزائن ایک تیر کی طرح کا ہے اس وجہ سے ایندھن کی بچت بھی ہوتی ہے اور یہ تیز رفتار پرواز بھی کر سکتا ہے۔ اس کے ونگ چھوٹے ہیں تاکہ یہ جہاز عام ہوائی اڈوں پر بھی اتر سکے۔
تصویر: Bauhaus-Luftfahrt e.V.
صرف ایندھن کی بچت ہی کافی نہیں
مصروف افراد کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ڈی ایل آر کا اسپیس لائنر راکٹ انجنوں والا مسافر بردار ہوائی جہاز ہے۔ 2050ء میں اس جہاز میں سفر کرتے ہوئے یورپ سے آسٹریلیا صرف 90 منٹ میں پہنچنا ممکن ہو گا۔
تصویر: DLR
9 تصاویر1 | 9
ادھر دہلی میں طیارہ کمپنی انڈیگو نے ایک بیان جاری کر کے مسافر کی موت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا،'' شارجہ سے لکھنؤ کے لیے انڈیگو کی فلائٹ آئی جی او 1412 کو میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے کراچی ہوائی اڈے پر اترنا پڑا۔ بدقسمتی سے مسافر کی جان بچائی نہیں جاسکی۔ ایئر پورٹ پر موجود میڈیکل ٹیم نے انہیں پہلے ہی مردہ قرار دے دیا۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان نے ہندوستان کے کسی طیارے کو کراچی میں ایمرجنسی لینڈنگ کی اجازت دی ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں بھی سعودی عرب سے بھارت کے دارالحکومت دہلی جانے والے پرائیوٹ ایئر لائن کمپنی گو ایئر کے ایک طیارے کو کراچی میں ہنگامی طورپر اترنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن طیارے پر سوار مسافر دل کا دورہ پڑنے سے پہلے ہی انتقال کر چُکا تھا۔
ج ا/ ک م (ایجنسیاں)
ایئر ہوسٹس ہونا کوئی آسان کام تھوڑے ہی ہے
خوبصورت، نازُک اندام اور نرم گفتار۔ ایسی ہی گلیمرس تصویر ابھرتی ہے نا کسی ایئر ہوسٹس کی؟ بھارت کی سرکاری فضائی کمپنی ایئر انڈیا میں ایئر ہوسٹوں کے حد سے زیادہ وزن پر خوب ہنگامہ مچا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پرواز پر ساتھ جانے کی ممانعت
ایک سال پہلے ایئر انڈیا نے اپنے کیبن عملے کے ساڑھے تین ہزار اہلکاروں میں سے تقریباً 600 کو چھ ماہ کے اندر اندر اپنا وزن کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ان میں سے تقریباً 130 کو زیادہ وزن کا حامل ہونے کی بناء پر طیاروں کے اندر ڈیوٹی سے ہٹا لیا گیا ہے۔ اب اُنہیں یا تو دیگر دفتری قسم کی ذمے داریاں سونپی جائیں گی یا پھر قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جسمانی طور پر فِٹ ہونا انتہائی اہم
کیبن عملے کے جسمانی طور پر فِٹ نہ ہونے کی صورت میں کسی ایمرجنسی کی صورت میں انہیں پرواز کے دوران اپنی ڈیوٹی ٹھیک طریقے سے ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور یوں مسافروں کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
تصویر: starush/Fotolia
باڈی ماس انڈیکس کا پیمانہ
شہری ہوا بازی کا ڈائریکٹوریٹ جنرل کیبن عملے کے لیے باڈی ماس انڈیکس اور صحت سے متعلق دیگر معیارات کا تعین کرتا ہے۔ اگر فلائٹ اٹینڈنٹ کے وزن اور قد کے درمیان تناسب طے کردہ پیمانے کے مطابق نہ رہے تو اسے پرواز کے ساتھ جانے سے منع کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Raveendran
موٹاپا ڈیوٹی کی راہ میں رکاوٹ
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ایئر انڈیا نے اپنے کیبن عملے کے کسی رکن کو موٹاپے کی وجہ سے ہوائی جہاز کی ڈیوٹی سے ہٹا دیا ہو۔ 2009ء میں بھی پرواز کے دوران ڈیوٹی انجام دینے والے ایسے دس اٹینڈنٹس کو کیبن ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry
پرواز کے دوران ہمہ وقت چوکس
چین کی اس ایئر لائن میں ایک ایئر ہوسٹس سیٹ بیلٹ باندھنے کا طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ سفر کے دوران سلامتی سے متعلق کئی دیگر معلومات بھی مسافروں کو دے رہی ہے۔ سستے ہوائی ٹکٹ والی ایئر لائنز میں بھی مفت کھانا بھلے ہی نہ ملے لیکن کیبن عملہ تو ہوتا ہی ہے۔
تصویر: Getty Images/China Photos
نیند کی کمی اور گھر سے دوری
طویل فاصلے کے ہوائی سفر میں کیبن عملے کو بھی کافی طویل شفٹیں کرنا پڑتی ہیں۔ اٹینڈنٹس کو نیند کی کمی کے علاوہ کئی دنوں تک گھر سے دور رہنا پڑتا ہے۔ کئی بار ہوائی جہاز میں ہی عملے کو کسی مسافر کی طبیعت خراب ہونے جیسی میڈیکل ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
مسافروں کی مدد کے لیے کمر بستہ
مسافروں کو پرواز سے متعلق حفاظتی معلومات دینا اور پورے سفر کے دوران ان کی سہولت کا خیال رکھنا ان کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے علاوہ فلائٹ اٹینڈنٹس کو ہر وقت ایمرجنسی میں فوری معلومات فراہم کرنے کے لیے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/F. Mario
چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ
مسافروں کے لیے ہمیشہ تر و تازہ اور مسکرانے والی ایئر ہوسٹسوں کو تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود اپنی خوبصورتی، صحت اور فٹنس کا اچھی طرح سے خیال رکھنا ہوتا ہے۔