بھارتی فوجی کریک ڈاؤن: کشمیر میں ہزاروں شہری چھپنے پر مجبور
4 نومبر 2016اس موضوع پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جمعہ چار نومبر کے روز کلگام سے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ کشمیر میں بہت سے باغات اور جنگلاتی علاقوں میں درجنوں ایسے نوجوان مقامی باشندے دیکھے جا سکتے ہیں، جو بھارتی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے ایسی جگہوں پر چھپے ہوتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ کشمیر کے گھنے درختوں والے پہاڑی علاقے ایسے کشمیری نوجوانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کام دے رہے ہیں، جو صرف نیم فوجی بھارتی سکیورٹی دستوں سے بچتے ہوئے ایسے مقامات کا رخ کرتے ہیں۔
یہ کشمیری نوجوان سیب کے درختوں کے نیچے لیٹے ہوئے، اپنے ارد گرد پھلوں کے بڑے بڑے ڈبے رکھے، آپس میں گپیں لگاتے اور ان میں سے چند ویڈیو گیمز کھیلتے نظر آتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہاں یہ نوجوان خود کو کچھ محفوظ تصور کرتے ہیں اور اپنے آبائی علاقوں میں معمول کے گلی محلوں کا رخ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ بھارتی فورسز کی کارروائیوں کا ہدف نہیں بننا چاہتے۔
بڑھتی ہوئی سردی میں یہ کشمیری شہری رات کے وقت اپنے دوستوں یا دور پار کے رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لے لیتے ہیں اور انہیں کوئی رات کہاں بسر کرنا ہے، اس کا فیصلہ حالات کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ نوجوان محض چند روز بعد ہی وہ جگہ بدل لیتے ہیں، جہاں وہ اپنے دن یا راتیں گزارتے ہیں۔
اس کے باوجود انہیں کسی بھی وقت کسی ناگہانی صورت حال کا سامنا ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے کیونکہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس سال جولائی کے مہینے سے نئی دہلی کے مسلح دستوں نے ہمالیہ کے اس علاقے کو نہ صرف تقریباﹰ ’بند‘ کر رکھا ہے بلکہ اس متنازعہ اور منقسم ریاست پر نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف جاری عوامی تحریک اور احتجاجی مظاہروں کے خاتمے کی بھی پوری کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اے پی نے لکھا ہے کہ اب تک آٹھ ہزار سے زائد نوجوان کشمیری مردوں، جن میں سے زیادہ تر ٹین ایجر ہیں، گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں ایسے دیگر کشمیری نوجوانوں کی تلاش بھی جاری ہے، جنہیں بھارتی سکیورٹی دستے ’مشتبہ‘ قرار دیتے ہیں۔
اس مراسلے میں نیوز ایجنسی اے پی نے مزید لکھا ہے کہ کشمیر میں پولیس ایسے زیر حراست کشمیری نوجوانوں کی اصل تعداد بتانے سے گریز کرتی ہے اور ان کی ہر بار بتائی جانے والی مجموعی تعداد پچھلی مرتبہ سے مختلف اور متضاد ہوتی ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ جن کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ ’سکیورٹی کے لیے خطرہ‘ ہیں، کیونکہ انہوں نے سرکاری دستوں پر پتھراؤ کیا تھا یا پھر وہ پولیس کے ساتھ تصادم میں ملوث تھے۔ بھارتی سکیورٹی ذرائع یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ گرفتار کیے گئے یا مشتبہ کشمیری نوجوانوں میں سے زیادہ تر مبینہ طور پر ایسے ہیں جو یا تو کشمیر پر بھارتی حکمرانی کے خلاف تحریک میں شامل ہو چکے ہیں یا پھر کشمیری علیحدگی پسندوں کی مدد کرتے ہیں۔
اے پی کے مطابق اس بارے میں ایک مقامی یونیورسٹی کے آرٹس کے ایک طالب علم نے، جو اپنے علاقے کے پولیس کو ’مطلوب 40 مشتبہ‘ کشمیری نوجوانوں میں سے ایک ہے، اپنی گرفتاری کے ڈر سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا، ’’ہم آزادی کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اب تو ہمیں خود اپنے سائے سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔‘‘
ایک دوسرے نوجوان کشمیری طالب علم نے بتایا، ’’میں سائنس کا طالب علم ہوں اور ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں۔ لیکن فی الحال تو پولیس نے مجھے ایک ایسا مفرور شہری بنا دیا ہے، جو مسلح کریک ڈاؤن سے بچنے کی کوشش میں ہے۔‘‘