بھارتی مساج پارلروں میں تھائی لڑکیوں کی مانگ بڑھ گئی
صائمہ حیدر
10 اگست 2017
بھارت میں بڑھتے ہوئے سپا اور مساج پارلر کے کاروبار نے تھائی لینڈ کی خواتین کی مانگ میں اضافہ کیا ہے۔ بھارتی پولیس اور سماجی کارکنوں کے مطابق متعدد تھائی خواتین کو جسم فروشی کے لیے انڈیا اسمگل کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
رواں برس بھارت کے مغربی شہروں پونے اور ممبئی میں مساج پارلروں پر چھاپوں کے دوران کم سے کم چالیس تھائی خواتین کو برآمد کیا گیا۔ اِن خواتین سے جسم فروشی کا کام کرایا جاتا تھا۔
غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کی بھارت میں پروگرام ڈائریکٹر جوتی نیل نے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’بھارت میں مساج کرنے والی تھائی لینڈ کی لڑکیوں کی مانگ اس لیے زیادہ ہے کہ انہیں اپنی سفید رنگت کی جلد کی وجہ سے ہائی پروفائل سمجھا جاتا ہے۔‘‘
جوتی نیل نے مزید کہا،’’ چھاپوں میں جن لڑکیوں کو بازیاب کیا جاتا ہے اُن میں سے زیادہ تر کا تعلق عموماﹰ مختلف بھارتی ریاستوں اور پڑوسی ممالک سے ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک ہی چھاپے میں ملنے والی تمام لڑکیاں تھائی لینڈ کی شہری ہوں تو پھر اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ تھائی خواتین بڑی تعداد میں بھارت کے مساج پالروں میں کام کر رہی ہیں۔‘‘
رواں برس جولائی کے مہینے میں ہی پونے کے ایک امیر علاقے میں قائم ایک مساج پارلر سے دس تھائی لڑکیوں کو برآمد کیا گیا تھا۔ فرانسیسی فلاحی تنظیم سیلیس کے مطابق دنیا بھر میں قریب چالیس ملین خواتین سیکس ورکرز کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ۔
بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک سے ایک طویل عرصے سے لڑکیوں کو اسمگل کر کے انڈیا لایا جاتا ہے اور ان سے جسم فروشی کا کام لیا جاتا ہے۔
بھارتی سماجی کارکنوں اور پولیس کا تاہم کہنا ہے کہ اب بھارتی مردوں اور بھارت آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی جانب سے تھائی لڑکیوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
پونے میں اینٹی ہیومن ٹریفِکنگ کے سربراہ سنجے پاٹل کہتے ہیں،’’ یہ چلن ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ یہ لڑکیاں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور غریب گھرانوں کی ہیں۔ ان کے گھر والے گزر بسر کے لیے اِن ہی کی آمدن پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
بھارتی پولیس کے مطابق تھائی سیکس ورکر خواتین، جن میں سے اکثر بنکاک سے تعلق رکھتی ہیں، سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ بھارت میں وہ زیادہ کما سکیں گی۔ تھائی لینڈ میں یہ خواتین اوسطاﹰ نو ڈالر کماتی ہیں جب کہ بھارت میں یومیہ اس سے دگنا کما لیتی ہیں۔
سنجے پاٹل نے بتایا کہ جن لڑکیوں کو انہوں نے آزاد کرایا وہ یہاں تین یا چار ماہ سے کام کر رہی تھیں اور اُن کے پاس تقریباﹰ پندرہ سو ڈالر تھے۔ پاٹل کے مطابق یہ تھائی لڑکیاں فی الحال شیلٹر ہوم میں ہیں اور واپس اپنے ملک جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔
بھارت میں تھائی سفارت خانے کے حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نئی دہلی، جے پور اور بنگلور سے بھی کئی تھائی لڑکیوں کو آزاد کرایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں جسم فروشی
بنگلہ دیش میں 2000ء سے جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس مسلم اکثریتی ملک میں جبری جسم فروشی انتہائی تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
جبری جسم فروشی
بنگلہ دیش میں لڑکیوں کو کم عمری میں جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں آباد بہت سے غریب خاندان 20 ہزار ٹکوں کے عوض اپنی لڑکیوں کو انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان لڑکے شادی کا لالچ دے کر لڑکیوں کو اس دھندے میں دھکیل دیتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
پرکشش بنانے والی ’ادویات‘ کا استعمال
جسم فروش لڑکیاں اکثر پرکشش دکھائی دینے کے لیے مخصوص دوائیں (اوراڈیکسن) استعمال کرتی ہیں تاکہ وہ صحت مند دکھائی دیں اور گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ ایسی ہی دوائیں کسان اپنے مویشیوں کو موٹا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق طویل عرصے تک اوراڈیکسن کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
دوا کے بجائے ٹیکے
اوراڈیکسن کم عمر بالخصوص بارہ سے چودہ برس کی عمر کی لڑکیوں پر کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایک قحبہ خانے کی مالکن رقیہ کا کہنا ہے کہ جواں سال جسم فروشوں کے لیے ٹیکے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
ادویات کا وسیع تر استعمال
غیرسرکاری تنظیم ایکشن ایڈ کے مطابق بنگلہ دیش کے قحبہ خانوں میں کام کرنے والی تقریباﹰ نوّے فیصد لڑکیاں اوراڈیکسن استعمال کرتی ہیں۔ تنظیم کے مطابق یہ پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر والی جسم فروش خواتین میں بہت مقبول ہے۔ اس تنظیم کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباﹰ دو لاکھ لڑکیاں جسم فروشی کے دھندے سے وابستہ ہیں۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
قحبہ خانوں میں مہم
ایکشن ایڈ نے جسم فروشوں کو اوراڈیکسن کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے قحبہ خانوں میں ایک مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس دوائی کی عادی خواتیں کو مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے ایک کارکن کے مطابق یہ دوا استعمال کرنے والی عورتوں کا وزن تو تیزی سے بڑھ ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور سر میں درد کی شکایت بھی رہنے لگتی ہے۔
تصویر: GMB Akash
ایچ آئی وی انفیکشن
بنگلہ دیش کے مقامی اخبار جسم فروشوں کے ایچ آئی وی انفیکشن میں مبتلا ہونے کی خبریں اکثر شائع کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا پتہ لگانے کے لیے کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں کی گئی۔ جسم فروش عورتوں کے مطابق ان کے اکثر گاہک کنڈوم استعمال کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تصویر: AP
جسم فروشی کے لیے بچوں کا استعمال
بنگلہ دیش میں یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یونیسیف کے 2004ء کے ایک اندازے کے مطابق وہاں دس ہزار کم عمر لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد 29 ہزار ہے۔
تصویر: M.-U.Zaman/AFP/GettyImages
اسلام پسندوں کے حملے
گزشتہ برس اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش کے ایک جنوبی علاقے میں ایک قحبہ خانے پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ تقریبا پانچ سو افراد بے گھر ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں جسم فروشی کے مراکز پر ایسے حملے معمول کی بات ہیں۔