بھارتی مسلمان: ’صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے،‘ ارون دتی
17 اپریل 2020
معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے نے الزام لگایا ہے کہ ملکی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور بھارت میں مسلمانوں کے لیے صورت حال ’نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے‘۔
اشتہار
ارون دتی رائے نے جمعہ سترہ اپریل کو ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکی کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کے چھ میں سے تین ہفتے پورے ہو چکے ہیں۔ نئی دہلی میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کا مقصد کووِڈ انیس نامی مرض کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے کو منقطع کرنا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیا کے اس ملک میں کورونا وائرس کے خلاف جدوجہد کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ مثال کے طور پر شہر میرٹھ میں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر 'کورونا جہاد‘ کر رہے تھے۔
دہلی کے فسادات میں بچ جانے والے افراد اب بھی خوف زدہ
بھارتی دارالحکومت میں رواں برس فروری میں پُرتشدد ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ اِن فسادات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: DW/S. Ghosh
عارضی سکون
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
زخم ابھی تازہ ہیں
ایسا نہیں لگتا کہ فسادات میں جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والے افراد اپنے غم کو بھول پائیں گے۔ کیمپوں میں رہنے والے اِنسانوں کو خوف کی صورتِ حال اور اپنے دُکھ درد سے نجات بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق فسادات میں ترپن افراد ہلاک ہِوئے تھے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
خواتین کی سلامتی کا معاملہ
عید گاہ کا کیمپ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصے میں خواتین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس تقسیم کی وجہ خواتین کا تحفظ ہے۔ کیمپ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ فسادات کے صدمے سے شاید ہی نہیں نکل سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
بچے مختلف مستقبل کو دیکھتے ہوئے
فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بچے شدید خوف کی حالت میں ہیں۔ اِن فسادات کے دوران کئی اسکولوں کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔ کیمپ میں بعض بچے اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اُن کے ذہن خوف کی لپیٹ میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اِمدادی عمل جاری
کیمپ میں مقیم افراد کو انتظامی اِداروں اور غیر حکومتی تنظیموں کی جانب سے قانونی اور مختلف معاملات بشمول صحت کی اِمداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کیمپ کے مکینوں کی عمومی صحت چیک اپ کرنے کے علاوہ اُنہیں ادویات بھی فراہم کرنے کا سِلسِلہ جاری رکھے ہُوئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اُمید ابھی زندہ ہے
تمام تر جسمانی تکالیف اور ذہنی صدمات کے باوجود کیمپ کے رہائشی یہ امید رکھتے ہیں کہ اچھ دن لوٹیں گے۔ وہ پھر سے اپنے پرانے علاقوں میں واپس جا کر دوست احباب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
6 تصاویر1 | 6
'مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران‘
ڈی ڈبلیو نیوز نے اس پس منظر میں معروف بھارتی ناول نگار اور سیاسی کارکن ارون دتی رائے کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے یہ پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہیں گی کہ اس وقت ان کے اپنے وطن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ارون دتی رائے نے کہا، ''بھارت میں کووِڈ انیس کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلاء، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نیوز کی سارہ کَیلی نے اس انٹرویو میں ارون دتی رائے سے یہ بھی پوچھا کہ اگر ان کے بقول بھارت میں اصل بحران نفرت کا بحران ہے، تو پھر ایک سیاسی کارکن کے طور پر خود ان کا بھارت کی ہندو قوم پسند حکومت کے لیے اپنا پیغام کیا ہو گا، جو بظاہر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں متعدد ناولوں کی انعام یافتہ مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا، ''مقصد ہی یہی ہے۔ آر ایس ایس نامی وہ پوری تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ انیس نامی بیماری کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں بھارت میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔‘‘
شہريت سے متعلق نيا بھارتی قانون مذہبی کشيدگی کا سبب
بھارت ميں منظور ہونے والے شہريت ترميمی بل کے ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ نيا قانون سيکولر اقدار اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس قانون کی مخالفت ميں جاری ملک گير احتجاج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Solanki
بھارت کے کئی علاقوں ميں انٹرنيٹ سروس معطل
رواں سال کے اواخر ميں ستائيس دسمبر کے روز بھارتی حکومت نے ملک کے کئی حصوں ميں سکيورٹی بڑھانے اور انٹرنيٹ کی ترسيل بند کرنے کے احکامات جاری کيے۔ شمالی رياست اتر پرديش ميں بھی اب انٹرنيٹ کی سروس معطل ہے۔ خدشہ ہے کہ شہريت ترميمی بل کی مخالفت ميں مظاہروں کی تازہ لہر شروع ہونے کو ہے۔ يہ متنازعہ بل گيارہ دسمبر کو منظور ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Khan
بھارتی سيکولر آئين کا دفاع
بھارت ميں منظور ہونے والا نيا قانون پاکستان، بنگلہ ديش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، سکھوں، پارسيوں، بدھ، جين اور مسيحيوں کے ليے بھارت ميں ’فاسٹ ٹريک‘ شہريت کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ناقدين کا کہنا ہے کہ يہ قانون مسلمانوں کے حوالے سے امتيازی ہے اور مذہب کی بنياد پر شہريت دينا بھارت کی سيکولر اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Boro
شہريت ثابت کرنے سے متعلق متنازعہ پروگرام
بھارتی حکومت ايک اور منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت بغير دستاويزات والے غير قانونی مہاجرين کو نکالا جا سکے گا۔ ناقدين کو خدشہ ہے کہ اگر ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر ملک گير سطح پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے، تو بھارت کے وہ شہری جو اس منصوبے کی شرائط کے تحت اپنی شہريت يا بھارت سے تعلق ثابت کرنے ميں ناکام رہے، ان کی شہريت ختم کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/S. Sen
آزاد خيال دانشور حکومتی پاليسيوں سے نالاں
بھارت میں کئی آزاد خيال دانشور نئے قانون اور ’نيشنل رجسٹر آف سيٹيزنز‘ پر کھل کر تنقيد کر رہے ہيں۔ ان ميں معروف مصنفہ ارندھتی رائے پيش پيش ہيں۔ قدامت پسند سياستدان اور سابق کامرس منسٹر سبرامنين سوامی نے ارندھتی رائے کی گرفتاری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
بھارتی طلباء متحرک
بھارت کے متعدد شہروں کی ان گنت يونيورسٹيوں کے طلباء نے تازہ اقدامات کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ ملک گير سطح پر جاری مظاہروں ميں کئی طلباء تنظيميں سرگرم عمل ہيں۔ نوجوان نسل اپنا پيغام پہنچانے اور لوگوں کو متحرک کرنے کے ليے سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کا بھی سہارا لے رہے ہيں۔
تصویر: DW/A. Ansari
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی
بھارتی حکام نے احتجاج کچلنے کے ليے ہزاروں پوليس اہلکاروں کو تعينات کيا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مظاہرين کے درميان جھڑپوں ميں اب تک پچيس سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ بھارتی آرمی چيف نے بھی احتجاجی مظاہروں ميں طلباء کی شموليت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: AFP/B. Boro
ہندو قوم پرست اب بھی اپنے موقف پر قائم
تمام تر مخالفت اور احتجاج کے باوجود وزير اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتيہ جنتا پارٹی اب بھی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ پارٹی رہنماوں کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو غلط معلومات فراہم کی گئی ہيں اور لوگوں کو قانون کا مطلب نہيں معلوم۔ بی جے پی احتجاجی ريليوں کا الزام حزب اختلاف کی جماعت کانگريس پر عائد کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شہريت ترميمی بل کے حامی
راشتريہ سوايمسيوک سانگھ يا آر ايس ايس انتہائی دائيں بازو کی ايک ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ بی جی پی اسی جماعت سے نکلی ہے۔ آر ايس ايس کے کارکن بھی اس متنازعہ قانون کے حق ميں سڑکوں پر نکلے ديکھے گئے ہيں۔
تصویر: AFP
8 تصاویر1 | 8
'بھارت میں صورت حال نسل کسی کی طرف بڑھتی ہوئی‘
ارون دتی رائے نے اپنی اس تنبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''بھارت میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں کو جلایا گیا اور ان کا شکار کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کے اس وبا کے ساتھ نتھی کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سڑکوں تک پر آ گئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسی شہریت ترمیمی قانون کا نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال کو بے ضرر سا بنا کر اور کورونا وائرس کی وبا سے منسوب کر کے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس پر دنیا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی میں نہیں کر سکتی۔‘‘
ارون دتی رائے نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا تھا کہ بھارت کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہیں، جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔ ''تو پھر اس المیے کی نشاندی کے حوالے سے کس کی آنکھیں کھلی ہیں اور کس کی آنکھیں بند ہیں؟‘‘ اس پر رائے کا جواب تھا، ''دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ ہر بین الاقوامی رہنما وزیر اعظم (نریندر مودی) کا خیر مقدم کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ بھی تو خود اس پورے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جب پرتشدد واقعات شروع ہوتے ہیں، تو مودی خاموش رہتے ہیں۔ دہلی میں جو گزشتہ قتل عام ہوا، وہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کے دورے پر تھے۔ لیکن ٹرمپ نے بھی کچھ نہ کہا۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ، آج کل ایک نسل کش میڈیا بنا ہوا ہے، ان جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کر رہا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی تو میں نے ابھی بات ہی نہیں کی، جس کا کئی ملین بھارتی باشندوں کو سامنا ہے۔‘‘
م م / ش ح (ڈی ڈبلیو)
بھارت میں مودی کی جیت کا جشن
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سن دو ہزار چودہ سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرتے ہوئے جیت سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ 542 سیٹوں میں سے 283 پارلیمانی سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
اپوزیشن کی کانگریس جماعت کو صرف 51 سیٹوں پر سبقت حاصل ہے۔ یہ غیر حتمی اور ابتدائی نتائج ہیں لیکن اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو نریندر مودی کی جماعت واضح برتری سے جیت جائے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
بی جے پی کو اکثریتی حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جماعت بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے حکومت سازی کرے گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق بی جے پی کی اتحادی سیاسی جماعتیں بھی تقریبا 50 سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں اور اس طرح نریندر مودی کی جماعت کے ہاتھ میں تقریبا 330 سیٹیں آ جائیں گی۔
تصویر: DW/O. S. Janoti
اعداد وشمار کے مطابق دنیا کے ان مہنگے ترین انتخابات میں ریکارڈ چھ سو ملین ووٹ ڈالے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے انعقاد پر سات بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
بھارت میں ان تمام تر ووٹوں کی گنتی آج تئیس مئی کو مکمل کر لی جائے گی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
بھارت سے موصول ہونے والے ابتدائی غیرحتمی نتائج انتہائی ناقابل اعتبار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ سن 2004ء کے ابتدائی خیر حتمی نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کی خبریں سامنے آئی تھیں لیکن حتمی نتائج سامنے آنے پر کانگریس جیت گئی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Dave
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس کے ایک علاقائی لیڈر نے ان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کا انڈیا ٹوڈے نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم جنگ ہار گئے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Dave
دوسری جانب کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی نے بدھ کے روز ان ابتدائی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ اڑتالیس سالہ گاندھی کا اپنے حامیوں سے ٹویٹر پر کہنا تھا، ’’جعلی ابتدائی نتائج کے پروپیگنڈا سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ابتدائی نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راہول گاندھی کو ریاست اترپردیش میں امیٹھی کی آبائی حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی نسلوں سے گاندھی خاندان اس حلقے سے منتخب ہوتا آیا ہے۔