بھارتی معیشت میں سست روی، کئی ملین ملازمتیں ختم ہو گئیں
جاوید اختر، نئی دہلی
23 اگست 2019
بھارتی معیشت میں سست روی اور روزگار کے کئی ملین مواقع ختم ہو جانے پر ریاستی اداروں اور بہت سے ماہرین کے بعد اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھارت کے لیے اپنے سالانہ مشورے میں اقتصادی سست روی اور آمدنی میں کمی کے بعد گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ملکی وزارت خزانہ سے پوچھا ہے کہ قومی بجٹ میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں نیز اشیاء اور خدمات سے متعلق ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں مالی وسائل کے حصول کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے، آیا وہ واقعی حاصل کیا جا سکتا ہے؟
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم اپریل سے 15 اگست تک کے درمیان براہ راست ٹیکس ریونیو میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ شرح کم ہو کر 4.7 فیصد ہو گئی حالانکہ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ شرح 9.6 فیصد تھی اور مطلوبہ شرح تو 17.3 فیصد ہے۔
نجی شعبہ خوف زدہ
اس سے قبل منصوبہ بندی کے حکومتی ادارے 'نیتی آیوگ‘ کے نائب سربراہ راجیو کمار نے بھی اقتصادی سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ”ملک کی اقتصادی صورت حال غیر معمولی طور پر تشویش ناک ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں ملکی مالیاتی شعبے کی ایسی حالت کبھی نہیں رہی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اس وقت کوئی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی قرضے دینے کو تیار ہے۔" راجیو کمار کا خیال ہے، ''پرائیویٹ سیکٹر میں پائے جانے والے خوف کو ختم کرنا ہو گا تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔‘‘ نیتی آیوگ کے چیئرمین بھارتی وزیر اعظم نریند رمودی ہیں۔
بھارت کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی ملکی معیشت میں سست روی کو انتہائی حد تک باعث تشویش قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”میرا ماننا ہے کہ معیشت میں سست روی یقینی طور پر بہت ہی تشویش ناک ہے۔ آپ ہر طرف دیکھ سکتے ہیں کہ کمپنیاں فکر مند ہیں۔ نئی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن بین الاقوامی منڈیوں سے قرض لینے سے کوئی سدھار تو ممکن نہیں مگر صرف وقتی بہتری ہی آ سکتی ہے۔"
بالواسطہ ٹیکس نظام میں بہتری کی ضرورت
آئی ایم ایف نے اپنے مشورے میں جی ایس ٹی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور بالواسطہ ٹیکس نظام کو مزید سہل بنانے پر زو ر دیا ہے۔ اقتصادی سست روی کا اثر مختلف شعبوں پر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ کئی اہم صنعتوں میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل سیکٹر پر اس اقتصادی سست روی کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ سوسائٹی آف انڈین آٹو موبائل (سیام) کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری میں دس لاکھ ملازمتوں کے ختم ہو جانے کاخطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے، تو یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
بھارت کی فیڈریشن آف آٹو موبائل ڈیلرز (فاڈا) کے مطابق گزشتہ تین ماہ یعنی مئی سے جولائی کے درمیان گاڑیاں فروخت کرنے والے تاجروں نے اپنے تقریباً دو لاکھ ملازمین فارغ کر دیے۔ فاڈا کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ مستقبل میں مزید ملازمتیں ختم ہونے سے بہت سو شو رومز بند ہو سکتے ہیں۔ فاڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 ماہ میں 271 شہروں میں 286 آٹو موبائل شورومز بند ہو چکے ہیں۔ کاروں کی فروخت میں 31 فیصد کمی ہو چکی ہے جو گزشتہ 19برسوں کی سب سے اونچی شرح ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی انتہائی خراب
بھارت میں اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔ اس شعبے سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ لیکن ملک بھر میں ایک تہائی اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں، وہ بھی خسارے میں ہیں۔ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے پچھلے دنوں ملک کے متعدد قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کروا کر مودی حکومت کی توجہ اس تشویش ناک صورت حال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔
معیشت میں سست روی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔ دیہی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بسکٹ تیار کرنے والی ایک 90سال پرانی اور سب سے بڑی کمپنی پارلے نے اسی سست روی کی وجہ سے اپنے دس ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں سے نکال دینے کا عندیہ دیا ہے۔ کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ بالخصوص دیہی علاقوں میں بسکٹ کی فروخت بہت کم ہو جانے کی وجہ سے کمپنی اپنی پیداوار کم کر سکتی ہے اور ایسا ہونے پر بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔
بیرون ملک آباد شہریوں کی وطن بھیجی گئی رقوم، ٹاپ ٹین ممالک
بیرونی ممالک سے رقوم کی ترسیل کئی ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ 2018 میں بیرون ملک آباد شہریوں کی اپنے وطن بھیجی گئی رقوم ترقی پذیر ممالک کو بھیجی گئی کل رقوم کا نصف سے بھی زائد بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
1۔ بھارت
بھارت میں اس برس 80 بلین ڈالر کی رقوم دیگر ممالک سے منتقل ہوئیں جو کہ گزشتہ برس کی نسبت پندرہ فیصد زائد ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس اضافے کی ایک بڑی وجہ کیرالا میں شدید سیلاب بھی بنے، جن کے بعد بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں نے اپنے اہل خانہ کی مدد کے لیے اضافی رقوم بھجوائیں۔ خلیجی ممالک سے رقوم کی ترسیل میں بارہ فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ رقوم بھارتی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
2۔ چین
چین میں بیرونی ممالک سے اس برس 67.4 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بھی دیگر ممالک میں مقیم چینی شہریوں کی جانب سے وطن بھیجی گئی رقوم براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ رہیں۔
تصویر: Imago/PPE
3۔ میکسیکو
اس برس میکسیکو میں دیگر ممالک سے 33.7 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر تارکین وطن نے بھیجے تھے۔ ورلڈ بینک کے مطابق آئندہ برس بھی بیرون ملک آباد میکسیکو کے شہریوں کی جانب سے رقوم کی ترسیل میں اضافہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
4۔ فلپائن
چوتھے نمبر پر فلپائن ہے، جہاں اس برس دیگر ممالک میں مقیم فلپائنی شہریوں نے 33 بلین ڈالر بھیجے۔ یہ رقم فلپائن کی مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Holger Ernst
5۔ مصر
گزشتہ برس کی نسبت چودہ فیصد اضافے کے ساتھ مصر کے تارکین وطن شہریوں نے 25.7 بلین ڈالر واپس اپنے وطن بھیجے۔ یہ رقوم مصری جی ڈی پی کا قریب گیارہ فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6۔ نائجیریا
چھٹے نمبر پر افریقی ملک نائجیریا ہے، جہاں اس برس 25.1 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر نائجیرین تارکین وطن نے بھیجے۔ بیرون ممالک سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. U. Ekpei
7۔ پاکستان
رواں برس پاکستان کو دیگر ممالک سے قریب 21 بلین ڈالر موصول ہوئے، جو گزشتہ برس کی نسبت 6.2 فیصد زیادہ ہے۔ زیادہ تر بیرون ملک آباد پاکستانی شہریوں کی جانب سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس برس سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں چھبیس فیصد کی کمی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
8۔ یوکرائن
آٹھویں نمبر پر یوکرائن ہے، جہاں اس برس بیرون ملک آباد یوکرانی باشندوں اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں 16.5 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ یہ رقوم یوکرائن کی مجموعی قومی پیداوار کا 13.8 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Supinsky
9۔ بنگلہ دیش
سن 2018 کے دوران بنگلہ دیش میں بیرون ملک سے سولہ بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بنگلہ دیش میں بھی خلیجی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم میں ایک چوتھائی کی کمی دیکھی گئی۔
تصویر: DW
10۔ ویت نام
ورلڈ بینک کے مطابق دسویں نمبر پر ویتنام ہے، جہاں رواں برس 15.9 بلین ڈالر دیگر ممالک سے منتقل کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
پارلے اپنے بسکٹوں کا ایک پیکٹ صرف پانچ روپے میں فروخت کرتی ہے، جو کہ دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے بسکٹوں کی فروخت میں سات سے آٹھ فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے۔ بھارت ہی میں بسکٹ تیار کرنے والی ایک اور بہت بڑی کمپنی برٹانیہ کا کہنا ہے کہ لوگ اب پانچ روپے کا بسکٹ کا پیکٹ خریدنے سے پہلے بھی دو مرتبہ سوچتے ہیں۔ برآمدات کا حال بھی برا
برآمدات کے محاذ پر بھی اس وقت بھارت کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل سے جون 2018 کے درمیانی عرصے میں بھارت نے 1064 ملین امریکی ڈالر کہ مصنوعات برآمد کی تھیں۔ لیکن اس سال کے اسی عرصے میں ملکی برآمدات کی مالیت بہت زیادہ کمی کے بعد 695 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔ گویا برآمدات میں 35 فیصد کی کمی ہوئی۔
اس تشویش ناک صورت حال کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ساتھ صلاح مشورے بھی کیے تھے۔ انہوں نے بے تحاشا ملازمتوں کے ختم ہو جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو اقتصادی سست روی کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔