بھارتی میڈیا نے امریکی طیارے اور ویڈیو گیمز کے پرانے مناظر کو افغانستان کی وادی پنجشیر میں ایک پاکستانی جیٹ طیارے کی کارروائی کے طور پر پیش کردیا۔ مگر ایک آزاد برطانوی دفاعی نیوز جرنل نے اس فیک نیوز کا پول کھول دیا۔
اشتہار
بھارت کے بعض نیوز چینلز نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان اور قومی مزاحمتی محاذ کے درمیان لڑائی کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ایسی کئی فیک ویڈیوز نشر کردیں، جو پہلے کسی ایک ویڈیو گیم کے کلپس نکلے اور پھر امریکی طیارے کے کافی پرانے مناظر ثابت ہوئے۔
بھارت میں سنسنی خیز اور پاکستان مخالف سمجھے جانے والے نیوز چینل ریپبلک ٹی وی اور ہندی نیوز چینل 'زی ہندوستان‘ نے چھ سمبر کو ایک فوٹیج نشر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستانی ڈرونز وادی پنجشیر میں طالبان مخالف جنگجوؤں پر بمباری کررہے ہیں۔
کیا طالبان پنجشیر فتح کرسکیں گے؟
03:00
اس کے بعد کئی بھارتی خبر رساں اداروں نے بھی رپورٹ کیا کہ پاکستانی فوج خاص طور پر اس کی فضائیہ پنجشیر میں مزاحمتی جنگجوؤں کے خلاف طالبان کی مدد کر رہی ہے۔ لیکن 'بوم‘ نامی ایک فیکٹ چیک ویب سائٹ نے ان جعلی خبروں کا راز فاش کرتے ہوئے بتایا کہ ریپبلک ٹی وی اور زی نیوز پر دکھائی گئی وائرل ویڈیوز دراصل آرما تھری نامی ایک ویڈیو گیم کے مناظر ہیں۔
اس کے علاوہ یوکے ڈیفینس جنرل نامی ویب سائٹ نے بھی بھارت کے نیوز چینل ٹائمز ناؤ میں نشر کی گئی ایک دیگر خبر کے بارے میں بتایا کہ ویلز میں پرواز کرنے والے ایک امریکی جنگی طیارے F-15 کو 'افغانستان میں پاکستان کی مداخلت‘ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف غیر مصدقہ خبروں کے حقائق سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے بھارتی نیوز چینلز کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمان نے اس بارے میں ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بھارتی میڈیا نے من گھڑت خبروں کا سہارا لیا ہے، سن 2019 میں بالاکوٹ میں ہونے والے حملے کے موقع پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
ع آ / ع ا (سوشل میڈیا)
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔