1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی میڈیا ’محاصرے‘ کی زد میں

7 اگست 2018

گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارتی میڈیا انڈسٹری تیزی سے پروان چڑھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر کاروباری و سیاسی افراد کے دباؤ اور اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

Indien NDTV Nachrichtenkanal
تصویر: Getty Images/AFP/C. Khanna

نیوز چینل اے بی پی سے وابستہ دو معروف صحافیوں نے حال ہی میں استعفے دے دیے جس کے بعد بھارت میں میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ چینل چھوڑنے والوں میں چیف ایڈیٹر میلنڈ کھانڈیکر اور پُنیا پراسون باجپائی شامل ہیں جو مشہور ٹی شو ’ماسٹر اسٹروک‘ کے میزبان تھے۔

گزشتہ ماہ اس چینل نے ایک رپورٹ نشر کی تھی جس میں بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں کے رہائشی کی کہانی سنائی گئی تھی۔ اس شخص نے بتایا تھا کہ حکومتی اہلکاروں نے اسے یہ جھوٹ بولنے کو کہا تھا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دیہاتیوں کے لیے شروع کردہ ایک اسکیم سے مستفید ہوئے تھے۔ اس رپورت کے بعد حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس ٹی وی چینل سے شدید ناراض ہوئی تھی۔

اسی نیوز چینل نے نیوز اینکر ابھیشر شرما کو بھی اس لیے ’آف ایئر‘ کر دیا تھا کیوں کہ انہوں نے چینل انتظامیہ کی جانب سے مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید نہ کرنے کی پالیسی کی خلاف ورزی کی تھی۔ بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملکی میڈیا اداروں کو جس دباؤ کا اس وقت سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

نئی دہلی کی ایک خاتون صحافی سیوانتی نیناں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت صحافیوں پر براہ راست دباؤ نہیں ڈالتی بلکہ وہ میڈیا مالکان پر دباؤ ڈالتی ہے جو عام طور پر دباؤ میں آ بھی جاتے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سیلف سنسرشپ میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ اے بی پی نیوز میں جو کچھ ہوا، وہ سنسر شپ کی صرف ایک مثال ہے۔‘‘

ایک بھارتی ماہر عمرانیات سنجے سری واستو نے اس رجحان کو ’پریشان کن‘ قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بڑی میڈیا آرگنائزیشنز سیاست دانوں اور کاروباری اداروں کی مشترکہ ملکیت میں ہیں، جو ان ٹی وی چینلز اور اخباروں کو مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

بھارتی صحافیوں کے لیے موجودہ سیاسی ماحول میں، جس کا میڈیا منظر نامہ ’الٹرا نیشنل ازم‘ کی چھاپ کی لپیٹ میں ہے، غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ صحافیوں پر بلواسطہ دباؤ ڈالے جانے کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن اور سوشل میڈیا ٹرولز بھی صحافیوں کو منظم انداز میں حراساں کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں بھارت کی کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشک سنگھوی نے بھی اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا، ’’میڈیا اداروں پر کارپوریٹ اور سیاسی دباؤ شدید تر ہو چکا ہے اور ایسے میں صرف چند صحافی ہی ایسے ہیں جو غیرجانبداری کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘‘

ش ح/ ع ح (مرلی کرشن، نئی دہلی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں