بھارتی نوجوانوں میں امراض قلب کے خطرات میں اضافہ
21 اپریل 2011رپورٹ کے مطابق بھارتی نوجوانوں میں موٹاپے کی شرح میں اضافہ، مستقبل میں دل کے امراض، ہائی بلڈپریشر اور ذیابیطس کا موجب بنے گا۔ اس ریسرچ کے دوران بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں موٹاپے کے شکار 1100 نوجوانوں کی صحت کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ سات سال پر محیط اس تحقیق کے دوران ان تمام گیارہ سو نوجوانوں کے اندر دل کی بیماری، ذیابیطس اور ہائی بلڈپریشر کا عارضہ پایا گیا۔
نئی دہلی کے کہنہ امراض کے کنٹرول کے ایک مرکز سے منسلک ایک ماہر امراض قلب دوریراج پربھاکارن، جو اس تحقیق میں شامل تھے، نے بھارت کے شہری نوجوانوں میں تیزی سے بڑھتے ہوئے موٹاپے کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’بھارت میں تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی اوراقتصادی صورتحال اور آبادی کے اعداد وشمار میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر مجھے اس رپورٹ پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ حالانکہ عام طور سے مغربی طرز کی غذاؤں کو موٹاپے اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، ایسی غذاؤں کا استعمال بھارت میں اتنا عام نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں بہت سے انڈین کھانے جو عوام میں بہت مقبول ہیں، میں بہت زیادہ شکر اور چکنائی پائی جاتی ہے‘۔
جس وقت نئی دہلی کے گیارہ سو نوجوانوں پر یہ ریسرچ شروع کی گئی تھی اُس وقت ان کی اوسط عمر 29 سال تھی اور ان میں سے 50 فیصد کی کمر کے ارد گرد موٹاپے کے آثار نمایاں تھے۔ سات سال بعد موٹاپے کی یہ علامت 70 فیصد نوجوانوں میں پائی گئی، جبکہ ان نوجوان مردوں میں ہائی بلڈپریشر کی شرح 11 فیصد سے بڑھ کر 34 اور خواتین میں پانج سے بڑھ کر 12 فیصد ہوگئی۔ ان نوجوان مردوں میں ذیابیطس کا مرض پانچ سے بڑھ کر 12 فیصد ہو گیا، جبکہ نوجوان خواتین میں ذیابیطس ساڑھے تین فیصد سے بڑھ کر سات فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ان نوجوانوں کے اندرآگے چل کر دل کے امراض اور ہارٹ اٹیک کے امکانات بہت زیادہ ہوں گے۔
2010 ء میں ایک بلین سے زیادہ کی آبادی والے ملک بھارت میں دنیا کے دل کے مریضرں کی کُل تعداد کا 60 فیصد پایا جاتا تھا۔ اسی سلسلے میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں عضلات قلب کے اندر خون کے جم جانے کی بیماری اوسطاً 53 سال کی عمر میں رونماں ہوتی ہے، جبکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں یہ عارضہ چھ سال دیر سے یا 59 سال کی عمر میں جنم لیتا ہے۔ امراض قلب بھارتی عوام اور ملک کے نظام صحت پر بہت بڑے مالی بوجھ کا باعث بن رہا ہے، جبکہ لوگوں کی آمدنی کا پانچ سے 34 فیصد حصہ ذیابیطس کے مرض کے علاج پر صرف ہو رہا ہے۔
بھارت کے ماہر امراض قلب دوریراج پربھا کارن نے تاہم کہا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران ملک کے جنوبی دیہی علاقوں میں بھی دل کے امراض کے موجب خطرات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ تقریباً شہروں کے برابر پہنچ گئے ہیں۔ پربھا کارن نے کہا ہے امراض قلب کے خطرات پر قابو پانے کے لیے پالیسی بنانےکی ضرورت ہے۔ خاص طور سے تمباکو نوشی پر پابندی، پھلوں اور سبزیوں کی فراہمی میں اضافہ اور ان کی قیمتوں کو عوام کے لیے قابل خرید بنانا۔ نیز ایک ایسا معاشرتی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس میں لوگ اپنی جسمانی حرکت اور سرگرمیوں کو بہتر بنا سکیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امتیاز احمد