1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی وزیر دفاع اپنے چینی ہم منصب سے بات نہیں کریں گے

جاوید اختر، نئی دہلی
24 جون 2020

بھارت اور چین کے مابین سرحد پر جاری عسکری کشیدگی کے درمیان نئی دہلی نے کہا ہے کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اپنے چینی ہم منصب سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ دونوں رہنما وکٹری پریڈ میں شرکت کے لیے ان دنوں ماسکو میں ہیں۔

China Indien Grenzstreit
تصویر: picture-alliance/A.Wong

ادھرعسکری کشیدگی اور سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے جاری کوششوں کے تحت آج بدھ 24 جون کو دونوں ملکوں کے درمیان جوائنٹ سکریٹری سطح پر بات چیت ہورہی ہے جبکہ بھارت کے آرمی چیف جنرل نروانے لداخ کے سرحدی علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں۔

بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور چین کے وزیر دفاع ویئی فینگے روس کے وکٹری ڈے کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ پریڈ میں شرکت کے لیے ان دنوں ماسکو میں ہیں۔  چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے خبر دی تھی کہ دونوں وزرائے دفاع وہاں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے اور سرحدی اور عسکری تنازعہ کو حل کرنے کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ تاہم بھارتی وزارت دفاع کے ترجمان نے آج واضح طور پر کہا کہ دونوں رہنماوں کے درمیان کوئی میٹنگ طے نہیں ہے۔

دوسری طرف بھارت اور چین سرحد پر جاری کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے آج جوائنٹ سکریٹری کی سطح پر ورچوول میٹنگ کررہے ہیں۔  یہ میٹنگ 'بھارت چین سرحدی امور پر صلاح و مشورہ اور رابطہ کے لیے ورکنگ میکانزم‘ (ڈبلیو ایم سی سی) کے تحت ہورہی ہے۔  2012 میں قائم اس میکانز م کا مقصد بھارت اور چین کے سرحدی علاقوں پر امن و سکون برقرار رکھنے کے لیے صلاح و مشورہ اور رابطہ کرنا نیز کمیونیکیشن اور تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے خیالات کا تبادلہ کرنا ہے۔

خیال رہے کہ ایشیا کی دو جوہری طاقت رکھنے والے پڑوسیوں کے درمیان مشرقی لداخ کے سرحدی علاقے گلوان وادی میں دونوں افواج کے درمیان 15جون کو ہونے والی پرتشدد جھڑپ کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔ اس جھڑپ میں بھارت کے 20 جوان مارے گئے جن میں ایک کرنل شامل تھا۔ جب کہ درجنوں دیگر جوان زخمی ہوگئے تھے۔ بھارتی میڈیا نے چین کے 40 فوجیوں کی ہلاکت کی خبریں دی تھیں تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ دنوں اس کی تردید کردی۔

بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانےتصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارت کے آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے آج لداخ میں سرحدی علاقے کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس سے قبل کل منگل کے روز انہوں نے لیہ میں فوجی ہسپتالوں کا دورہ کیا تھا اورگلوان وادی میں چینی فوج کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہونے والے بھارتی جوانوں کی عیادت کی تھی۔

دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کے متعدد اقدامات کے تحت پیر کے روز بھارت اور چین کے درمیان کور کمانڈر کی سطح پر میٹنگ ہوئی۔میٹنگ کے بعد جاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”دونوں فریق اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔"  لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو ضروری اقدامات کی تفصیل بتائی گئی ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ دوسری طرف دونوں ممالک سرحد پر اپنے اپنے علاقوں میں فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔

 اس صورت حال پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک سرحد پر اپنے فوجیوں کی تعداد میں فی الحال کسی بھی صورت میں کمی نہیں کریں گے۔ ڈی ڈبلیو کے ایک نمائندے کا کہنا ہے کہ کشمیر سے لداخ کی طرف جانے والی سڑک پر فوجی سازو سامان اوربڑی تعداد میں قافلوں کو جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ جب کہ دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ کرنل اجے شکلا نے ایک ٹوئٹ کرکے بتایا ہے کہ چین نے  لداخ سرحد پر متنازعہ علاقوں میں اپنی فوج کی تعداد میں 30 فیصدکا اضافہ کردیا ہے۔

چین نے اس علاقے میں کم از کم دس ہزار فوجی تعینات کیے ہیں جبکہ جنگی طیارے، ہیلی کاپٹر، ٹینک، میزائل سسٹم اور ایئر ڈیفنس رڈار بھی نصب کردیے ہیں۔

 سابق آرمی کمانڈر لفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ گلوان وادی میں جو کچھ ہوا ہے اس کے مدنظر بھارتی آرمی کو اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرتے وقت انتہائی چوکنا رہنا ہوگا اور احتیاط سے کام لینا ہوگا۔سینئر کمانڈروں کو اس پر نگاہ رکھنی ہوگی تاکہ کوئی غیرمتوقع صورت حال پیش نہ آجائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت بھی جاری رہنی چاہیے۔

اس دوران روس، بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان منگل کے روز ہونے والی معمول کی ورچوول میٹنگ میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین کا نام لیے بغیر کہاکہ دنیا کی اہم طاقتوں کو ہر طرح سے دوسروں کے لیے مثال بننا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کااحترام کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی پارٹنر ملکوں کے جائز مفادات کو تسلیم کرنا چاہیے کیوں کہ طویل مدتی عالمی نظام کو فروغ دینے کا یہی واحد راستہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں