بھارتی پنجاب میں سکھوں کا احتجاج اور شٹر ڈاؤن
3 نومبر 2009احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کی کال پر اس ریاست کے متعدد علاقوں میں کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ مظاہرین 1984ء کے فسادات میں سکھوں کے ’’قتل عام میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔‘‘ ہڑتال کے باعث پنجاب کے بشتر علاقوں میں ٹریفک کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔
دل خالصہ جماعت کے کارکنان نے پنجاب کے شہر اَمرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ کے قریب متعدد ٹرینیں روک دیں۔ اس وجہ سے حکام نے ملک کے دیگر علاقوں سے براستہ اَمرتسر، فیروزآباد اور لدھیانہ، دہلی جانے والی کئی ٹرینیں منسوخ کر دیں۔ مظاہرین نے دہلی سے جمّوں جانے والی اہم ٹرین پٹریوں پر بھی رکاوٹیاں کھڑی کردی تھیں۔
ایک سکھ محافظ کے ہاتھوں سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹنے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف نئی دہلی ہی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا تھا۔ مختلف سکھ گروپوں کا موقف ہے کہ یہ تعداد 4000 سے بھی زیادہ تھی۔ ان سکھ کش فسادات کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہوئے تھے۔
دَل خالصہ گروپ کے رہنما کنور پل سنگھ نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا:’’پچیس برسوں سے سکھوں کے لئے انصاف نہیں مل سکا۔ ہم چاہتے ہیں کی مرکز میں قائم ’بہری‘ حکومت ہمارے مطالبات سنے۔‘‘
اس موقع پرپنجاب میں متعدد مقامات پر دکانیں، پیٹرول پمپ اور کئی بینک بند رہے۔ احتیاطی تدابیر کے پیش نظر انتظامیہ نے پہلے ہی تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان کردیا تھا۔
ریاستی وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔’’ہم امن و امان قائم رکھنے کی پوری کوشش کریں گے، مظاہرین پرامن طریقے سے احتجاج کریں۔‘‘ پنجاب میں حکمران جماعت اَکالی دل وفاقی حکومت میں کانگریس پارٹی کی حلیف بھی ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : گوہر نذیر