1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کروڑ پتیوں کی جیبیں بڑی، دل چھوٹے

Kishwar Mustafa20 مارچ 2013

بیشک فلک بوس محل تعیمر کر لیں یا اپنے ذاتی طیارے میں گھومتے پھریں یا شادی کی شاندار تقریبات پر کروڑوں روپے خرچ کریں، بھارتی امراء خیراتی امداد کے لیے اپے بٹوے بڑی مشکل سے کھولتے ہیں۔

تصویر: AP

دنیا کے امیرترین افراد کی فہرست شائع کرنے والی فوربس رینکنگ کی اس ماہ منظر عام پر آنے والی تفصیلات سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی کروڑ پتیوں کی تعداد 55 ہے اور اس طرح جنوبی ایشیائی ملک بھارت میں اس وقت تمام دنیا سے زیادہ تعداد میں کروڑ پتی پائے جاتے ہیں۔

بھارت کی طرح دنیا کی ایک اور تیزی سے اُبھرتی ہوئی معیشت چین میں بھی مغربی ممالک کے مقابلے میں عطیات اور خیرات دینے والے ثروت مندوں کی بہت زیادہ کمی پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی معاشروں میں امیر تاجروں میں بڑی مد میں صدقات دینے کا رجحان کہیں زیادہ پایا جاتا ہے۔

بھارت فیشن اور شو بز میں بھی بہت آگے نکل چکا ہےتصویر: AP

ایک گلوبل مشاورتی کمپنی Bain& Company کے اندازوں کے مطابق بھارتی کروڑ پتیوں نےسن 2011ء میں اپنی آمدن کی اوسطاﹰ3.1 فیصد رقم خیرات کی۔ جبکہ امریکا میں اس کی سالانہ اوسط شرح 9.1 فیصد بنتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امیر بھارتی باشندوں میں اپنی دولت میں سے مستحقین کا حصہ ادا کرنے کا رُجحان نہایت سسُست روی سے بڑھ رہا ہے۔ ممبئی میں قائم ایک تھنک ٹینک ’ گیٹ وے ہاؤس‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹرمنجیت کرپلانی کے بقول، ’بھارتی کارپوریٹ، خاص طور سے نئے امیروں کے اندر صدقہ یا خیرات دینے کا رجحان غیر معمولی سسُت رفتاری کا شکار ہے‘۔ کرپلانی نے خدمت خلق پر مامور کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے امیر طبقے کو خیرات دینے کی ترغیب دلائیں اور اس اہم کام کے لیے موثر مہم شروع کریں۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت میں متاثر کُن ترقی ہوئی ہے جس کے سبب مالدار افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم حالیہ اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی کے سبب خدمت خلق کے اداروں کے فلاحی کاموں میں بھی سست روی آ گئی ہے۔ جبکہ جنوبی ایشیاء کے اس 1.22 ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں پائی جانے والی غربت سے نمٹنے کے لیے خدمت خلق کے اداروں کی اشد ضرورت پائی جاتی ہے۔

تجارتی مرکز ممبئی میں امارت اور غربت دونوں کی مثالتصویر: picture alliance / ZUMA Press / AP / Montage DW

Bain& Company کی سالانہ رپورٹ کے مصنف ’ارپان سیٹھ‘ کا کہنا ہے کہ صدقے اور خیرات وغیرہ کی ادائیگی کا تعلق انسان کے جذبات سے ہوتا ہے، جو اس وقت بہت کمزور نظر آ رہے ہیں۔ جہاں اقتصادی ترقی کا سوال ہو وہاں ان جذبات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔

حالیہ رپورٹ میں اگرچہ تازہ ترین اعداد و شمار شامل نہیں ہیں تاہم اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ موجودہ مشکل تجارتی حالات کے پیش نظر امیر افراد اور بڑے تاجر اپنی دولت میں سے مستحقین کے لیے رقم نکالنے پرآمادہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی وعدہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ صدقہ یا خیرات دینے کے سلسلے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں۔

بھارت کا امیر ترین شخص مکیش امبانی ہے جو ’رلائنس انڈسٹریز‘ کا سربراہ اور ایک ارب ڈالر کے ساتھ ساتھ ایک 27 منزلہ عمارت، جو اس کا گھر ہے، کا مالک ہے۔ اس نے مغربی خیراتی اداروں پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مغربی معاشروں کے خیراتی کارپوریٹ ’اختیارات لے لینے والے آلہ کار‘ کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرے میں انحصار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘۔

مکیش امبانیتصویر: picture-alliance/ dpa

’رلائنس انڈسٹریز‘ ٹاٹا اور برلا جیسے دیگر بڑے صنعتی گروپوں کی طرح خیراتی کاموں پر عمل پیرا ہے۔ ٹاٹا اور برلا جیسی بڑی صنعتی کمپنیاں اپنے ٹرسٹ کی مدد سے خدمت خلق کے لیے بڑے پروجیکٹس چلا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر صحت اور تعلیم کے شعبے سے لے کر دیہی علاقوں کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

بھارت کی ایک بہت بڑی سوفٹ ویئر کمپنی Wipro کے سربراہ عظیم پریم جی نے گزشتہ ماہ اپنی جیب سے 2.3 بلین ڈالر کی رقم ایک تعلیمی چیریٹی کے پروجیکٹ کے لیے ادا کی۔ فوریس رینکنگ میں انہیں ایشیاء کا سب سے فیاض اور فراخ دل شخص قرار دیا گیا ہے۔

km/ia(AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں