1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کےزیر انتظام کشمیر میں حاملہ خواتین بھی کورونا کا شکار

گوہر گیلانی، سری نگر
5 جون 2020

بھارت میں مثبت کورونا وائرس کیسز میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔اس وباء نے بھارت کے زیرانتظام جموں و کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وادئی کشمیر میں اب تک ایک سو چالیس حاملہ خواتین کے کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آئے ہیں ۔

Internationaler Tag der Pflege Indien
تصویر: AFP/T. Mustafa

 

جہاں بھارت میں مثبت کورونا وائرس کیسز میں آئے دن خوفناک اضافہ ہورہا ہے وہیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تین ہزار سے زائد کورونا وائرس کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں اور وادئی کشمیر میں اب تک ایک سو چالیس حاملہ خواتین کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جس سے طبی ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اس وقت بھارت میں کورونا وائرس کیسز کی مجموعی تعداد دو لاکھ ستائیس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد تقریباً چھ ہزار چار سو6400) ( تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح بھارت نے مجموعی کیسز کے لحاظ سے چین، ایران، ترکی، جرمنی اور فرانس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جبکہ  ایک آدھ روز میں انڈیا اٹلی سے بھی آگے  نکل جائے گا۔

 چار جون کو جموں و کشمیر میں تقریباً تین سو کورونا کیسز سامنے آئے جو اب تک ایک روز کے اندر مثبت کیسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس طرح خطے میں مجموعی کیسز کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ اب تک چھتیس افراد کورانا وائرس کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے چکے ہیں۔ مرنے والوں میں تیس سے زائد کا تعلق وادئی کشمیر سے تھا۔

ڈاکٹر سہہیل نائیک۔تصویر: privat

جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے کورونا وائرس میڈیا بلیٹن کے مطابق خطے میں چار جون تک 3142  مثبت کیسز تھے جن میں2059 ایکٹیو ہیں۔ چار جون کو مزید 285 کیسز سامنے آئے۔ اس بلیٹن کے مطابق مثبت کیسز میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو بیرونی ممالک سے اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں۔

 ڈاکٹروں کے مطابق سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہر روز ریکارڈ کیے جانے والے مثبت کیسز میں حاملہ خواتین بھی شامل ہوتی ہیں جس سے ماہرین طب کو یہ خد شہ لاحق ہے کہ خطے میں غالباً ‘‘کمیونیٹی اسپریڈ'' ہوچکا ہے۔

ایک سو سے زائد حاملہ خواتین کے علاوہ کئی نامور طبی ماہرین، اعلیٰ بیروکریٹ اور انتظامیہ کے افسران بھی مثبت پائے گئے ہیں جن میں سینیئر بیوروکریٹ دھیرج گپتا اور نامور ڈاکٹر نوید شاہ قابل زکر ہیں۔ علاوہ ازیں جموں و کشمیر پولیس کے کئی اہلکار بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر مثبت کیسز جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ اور شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے سامنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل نائک ڈاکٹرز ایسوسیشن آف کشمیر یعنی ‘ڈاک' کے صدر ہیں اور کشمیر میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نائک نے ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا کہ بیرونی ممالک اور بھارت کے مختلف علاقوں سے ‘‘کشمیر کا رخ کرنے والے مسافروں کو ‘کورونا وائرس مثبت' ہی تصور کیا جانا چاہیے جب تک کہ ان کے ٹیسٹ نتائج  منفی ثابت نہ ہوں۔''

ڈاکٹر یاصر وانی۔تصویر: privat

انہوں نے مزید کہا کہ حاملہ خواتین کے ٹیسٹ مثبت آنا ہرگز اچھی خبر نہیں ہے۔ ‘‘میری یہی المتاس ہے کہ لوگ جتنا ممکن ہو سکے اپنے گھروں میں ہی رہیں اور مجبوری کی صورت میں ہی باہر نکلیں لیکن چہرے  کو ڈھانپیں یا ماسک لگائیں اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ شفا خانوں کا رخ صرف مجبوری کی صورت میں کریں۔''

ڈاکٹر محمد سلیم خان گورنمنٹ میڈیکل کالج سری نگر کے کووڈ نوڈل افسرمقرر کئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حاملہ خواتین کی قوت مدافعت ایک صحت مند شخص کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جس سے انفیکشن اور بیماری سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ‘‘اسی لیے ہمارا پروٹوکول ہے کہ ہم حاملہ خواتین کے رینڈم ٹیسٹ کراتے ہیں تاکہ ماں اور بچہ دونوں سلامت رہیں اور ان کا بروقت علاج ممکن بنایا جا سکے۔ وقت پر

صحیح اقدامات نہ اٹھانے کی صورت میں سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔''

دوسری جانب مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ اور کنسلٹنٹ پیڈیٹریشن ڈاکٹر یاسر وانی دلاسہ دیتے ہیں کہ گھبرانے کی نہیں بلکہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ‘‘نوزائد بچے کو دودھ پلانے سے کورونا وائرس نہیں پھیلتا اور کووڈ مثبت ماؤں کے بچے پیدائش کے وقت کووڈ سے متاثر ہ نہیں ہوتے۔'' ڈاکٹر یاسر وانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے ضرورت اس بات کی ہے کہ جسمانی دوری برقرار رکھیں، کھانسنے کے آداب اپنائیں یعنی کھانستے وقت منہ اور ناک پر رومال ہونا چاہیے یا اپنی آستینوں کا استعمال کریں۔ماسک پہنیں اور ہسپتال کا رخ کرنے سے جتنا ہو سکے بچیں۔

گوہر گیلانی۔سری نگر/ ک م

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں