بھارتی کشمیر میں مرحومین کا سوگ منانے کی عوامی آزادی بھی ختم
10 اگست 2019
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلسل کرفیو کے باعث وادی کے عوام کی بہت سی آزادیاں کئی دنوں سے محدود ہیں۔ سخت سکیورٹی کے نام پر اب کشمیریوں کی اپنے انتقال کر جانے والے اقرباء کا سوگ منانے کی آزادی بھی ختم کر دی گئی ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتہ دس اگست کو اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ اس شہر کے ایک رہائشی عرفان احمد بھٹ کے والد اسی ہفتے اچانک انتقال کر گئے تو ان کے خاندان کے شدید دکھ میں وادی میں مسلسل نافذ رہنے والے کرفیو اور فوجی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اور اضافہ ہو گیا۔
عرفان بھٹ کے اہل خانہ نہ صرف ان کے والد کی آخری رسومات کے لیے جمع نہ ہو سکے بلکہ ان کے کئی رشتہ داروں کو بھی اس اچانک موت کی اطلاع نہ دی جا سکی۔ عرفان بھٹ نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا، ''یہ بات میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ بن گئی ہے کہ میرے والد کے بہت سے قریبی رشتہ دار بھی آخری مرتبہ ان کا چہرہ دیکھ سکے اور نہ ہی ان کی آخری رسومات میں شرکت کر سکے۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘
تقریباﹰ ایک ہفتے سے کرفیو
ڈیڑھ ملین کی آبادی والا شہر سری نگر ان دنوں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں مزید بھارتی سکیورٹی دستے بھیجے جانے کے بعد سے ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے کہ وہاں انٹرنیٹ اور موبائل فون رابطوں کو معطل ہوئے تقریباﹰ ایک ہفتہ ہونے کو ہے۔ اس کے علاوہ سری نگر کے تقریباﹰ پندرہ لاکھ شہری مسلسل اپنے گھروں میں بند ہیں، سوائے ان کے جن کے پاس گھروں سے باہر نکلنے کے لیے سکیورٹی حکام کے جاری کردہ 'کرفیو پاس‘ ہیں۔
کرفیو کی پابندیاں کتنی شدید ہیں؟
سری نگر میں مسلسل کرفیو نے عوامی زندگی کو کس حد تک مصائب کا شکار بنا رکھا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عرفان احمد بھٹ کے بقول وہ اپنے خاندان کے چار ایسے افراد کو بھی اپنے 58 سالہ والد کے انتقال کی اطلاع نہ دے سکے، جو سری نگر ہی میں رہتے ہیں۔
ان کے لیے اس المناک صورت حال کے دو اسباب یہ تھے کہ کرفیو کی وجہ سے انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور سری نگر ہی میں یا شہر سے باہر وہ یا ان کے اہل خانہ میں سے کوئی بھی دوسرا فرد کسی سے بھی انٹرنیٹ یا موبائل فون کے ذریعے رابطہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
سوگ منانے کے عادی کشمیری
اے ایف پی نے اپنے اسی مراسلے میں لکھا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عام شہری برسوں سے سوگ مناتے آ رہے ہیں۔ اس طرح انہیں اب اس کی عادت سی ہو گئی ہے۔ اس لیے بھی کہ اس خطے نے کشمیر کے اس حصے پر بھارتی حکمرانی کے خلاف گزشتہ تین عشروں میں مسلح مزاحمت کے دوران اتنی زیادہ خونریزی دیکھی ہے کہ یہی کشمیری اب تک اپنے بیسیوں ہزار دوستوں، ساتھیوں اور اہل خانہ کو دفنا چکے ہیں۔
لیکن کسی کشمیری مسلمان کے انتقال کے بعد اگر اس کی آخری رسومات بھی ادا نہ کی جا سکیں، اس کے انتقال پر اگر اس کے اہل خانہ اور اقرباء بھی تعزیت کے لیے جمع نہ ہو سکیں، تو یہ بات اس تکلیف دہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ کشمیر خصوصاﹰ سری نگر کو اس وقت جگہ جگہ قائم چیک پوسٹوں، ہر جگہ گشت کرتے بھارتی سکیورٹی دستوں اور ہر سڑک پر نظر آنے والی خار دار تاروں نے کس طرح کے شہر میں بدل دیا ہے۔
عرفان احمد بھٹ کے ایک رشتہ دار نے اس صورت حال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ایسے کیا کہ ان کی رائے کوئی رائے کم تھی اور ایک چبھتا ہوا سوال زیادہ، ''مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے اور پورے شہر میں تلوار جیسی تیز دھار خار دار تاریں بچھی ہیں۔ ہم کر کیا سکتے ہیں؟‘‘
م م / ش ح / اے ایف پی
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔