بھارتی کشمیر میں چھرے والی بندوق کا نیا نشانہ، 20 ماہ کی بچی
30 نومبر 2018آنکھ میں چھرہ لگنے کا تازہ ترین واقعہ بیس ماہ کی ایک بچی حبہ جان کا ہے، جس کی دائیں آنکھ چھرہ لگنے سے تقریباً ضائع ہو چکی ہے۔ بظاہر سرینگر کے ایک مرکزی ہسپتال کے آنکھوں کے معالجین اس بچی کی آنکھ بچانے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔ حبیہ جان کی آنکھ پر لگی پٹی والی تصویر اس وقت کشمیر میں نئی دہلی حکومت کے خلاف جاری تحریک کا ایک نیا استعارہ بن گیا ہے۔
حبہ جان کو اٹھا کر اُس کی والدہ مارسلہ اپنے گاؤں کے بازار میں تھی کہ پولیس کارروائی سے منتشر ہونے والے ہجوم میں گِر گئی اور ان مظاہرین کے تعاقب میں پولیس تھی۔ پولیس مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل بھی پھینک رہی تھی۔ یہ مظاہرین اُن چھ افراد کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جنہیں سکیورٹی فورسز کے بیان کے مطابق ایک دو طرفہ جھڑپ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اس جھڑپ میں ایک سکیورٹی اہلکار بھی مارا گیا تھا۔
مارسلہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو سری نگر کے ہسپتال کے قدرے تاریک انتظار گاہ میں کئی دوسرے متاثرین کے لواحقین کے ہجوم میں بتایا کہ وہ اپنے مکان کے دروازے پر تھی کہ ایک سکیورٹی اہلکار نے اُس پر چھرے والا فائر کیا۔ مارسلہ کے مطابق اُس نے اپنی بیٹی کے چہرے پر ہاتھ بھی رکھا ہوا تھا لیکن ایک چھرہ اُس کی انگلیوں کو چیرتا ہوا بچی کی دائیں آنکھ میں جا لگا۔
بھارتی سکیورٹی ماہرین کی تجویز پر کشمیر میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف ایسی پمپ ایکشن بندوقوں کا استعمال شروع کیا گیا ہے، جس کے ایک کارتوس سے ایک وقت میں چھ سو چھرے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ ایسی بندوقوں کا استعمال سن 2010 میں شروع کیا گیا اور ان چھروں کے لگنے سے کئی سو افراد ہلاک اور ہزاروں کو نابینائی کے آشوب کا سامنا ہے۔
حالیہ برسوں میں بھارتی کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک میں شدت دیکھی گئی ہے۔ رواں برس کے دوران اب تک سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 530 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بھارت کے پانچ لاکھ فوجی مقامی پولیس فورس کے ساتھ اس تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔