1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی گھریلو خواتین کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ

21 دسمبر 2021

بھارتی گھریلو خواتین کے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ان کی دماغی صحت کے حوالے سے تشویش ناک تصویر پیش کرتا ہے۔ وجودی، جمالیاتی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کے علاوہ اب کووڈ انیس بھی انہیں خودکشی پر اکسانے کا باعث بن رہا ہے۔

Symbolbild Indien Frauen Selbstmord
تصویر: Ritesh Shukla/imago images

رواں برس بھارت میں گھریلو خواتین کی خودکشی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی جان دے دینے کا فیصلہ آسان نہیں اور مختلف طرح کے دباؤ اور نامساعد حالات میں ذہنی پریشانی اور بے سکونی اس طرح کے انتہائی اقدامات کو تقویت دیتے ہیں۔

رواں برس اپریل میں مدھیہ پردیش کی باسی ایک گھریلو خاتون نے اس وقت خودکشی کر لی تھی، جب کورونا وائرس میں مبتلا اس کے کچھ قریبی رشتہ موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

اسی طرح ایسے کئی واقعات رجسٹر کیے گئے ہیں، جن میں کووڈ انیس کی عالمی وبا کی وجہ سے اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد متعدد خواتین نے خود کشی کر لی۔

 تاہم ماہرین کا اصرار ہے کہ ایسے صدمات انسانی ذہن پر منفی اثرات ضرور ڈالتے ہیں لیکن بھارتی گھریلو خواتین پہلے ہی نفسیاتی اور ذہنی دباؤ کا اتنا شکار ہوتی ہیں کہ کوئی بھی صدماتی واقعہ انہیں خودکشی پر اکسانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

انسداد خودکشی کے غیر سرکاری ادارے جیون ہیلپ لائن سے وابستہ ایک سماجی کارکن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ حال ہی میں شادی شدہ دو گھریلو خواتین نے خودکشی کی، جس کی بظاہر وجہ یہ قرار دی گئی کہ چونکہ کووڈ انیس سے ان کے رشتہ داروں کی ہلاکت ہوئی تھی اور وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور انہوں نے خودکشی کر لی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے ہی ڈپریشن کا شکار تھیں جبکہ کووڈ انیس نے ان کی دماغی صحت کو اور زیادہ متاثر کر دیا تھا۔

پچیس منٹ میں ایک خودکشی

حکومتی اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں 22,373 افراد نے خود کشی کی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ان اعداد وشمار سے واضح ہوتا ہے کہ ہر دن 61 افراد نے اپنی جان لی یعنی ہر 25 سکینڈ میں ایک شخص نے خودکشی کی۔

جنوبی ایشیا میں سن 2020ء میں خودکشی کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ واقعات رونما ہوئے، جن میں 14.6 فیصد گھریلو خواتین نے خودکشی کی۔ تاہم ان اعداد وشمار کے حوالے سے اگر صرف بھارت کی بات کی جائے، تو دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں خواتین کی خودکشی کرنے کی شرح مجموعی تعداد کے 50 فیصد سے زائد رہی۔

بھارت میں خواتین میں خود کشی کی شرح مردوں کی نسبت زیادہ

02:17

This browser does not support the video element.

کووڈ نے صورتحال ابتر کی

ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق گھریلو تشدد، کم عمری میں شادیاں اور معاشی بدحالی کی وجہ سے گھریلو خواتین کی نفسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے۔

کووڈ انیس کی عالمی وبا اور لاک ڈاؤن نے البتہ خواتین کو زیادہ متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس عالمی وبا میں گھریلو خواتین پر تشدد کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔

بھارت میں خودکشی کے واقعات پر قابو پانے کے ادارے ایس پی آئی ایف کے بانی نیلسن ونود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس عالمی وبا میں جہاں لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا وہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ گھروں میں قید ہو گئے، جس کے باعث گھریلو خواتین کو زیادہ کام کرنا پڑا اور اسی سبب انہیں نہ صرف آرام کے لیے وقت میسر نہ ہو سکا بلکہ انہیں خود کو دینے کو وقت بھی نہ بچا۔

بھارت کی مشہور ماہر نفسیات اور ذہنی امراض، انجلی ناگ پال کا بھی خیال ہے کہ کووڈ کی عالمی وبا نے بالخصوص خواتین کی زندگیوں کی مختلف طریقے سے زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انجلی ناگ پال نے کہا کہ کووڈ انیس کی وبا سے قبل لوگ گھریلو ناچاقی اور لڑائی سے بچنے کی خاطر گھروں سے نکل کر کہیں اور جا سکتے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران ایسا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے پاس انجوائے کرنے کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں اور اپنا موڈ ٹھیک رکھنے، گھومنے پھرنے یا عزیزو اقارب کے گھر جانے کے بہانے بھی ختم ہو گئے ہیں۔

خواتین کے لیے معاشرتی دباؤ 

بھارت جیسے ممالک میں ایسی خواتین کم ہی ہیں جو ڈپریشن میں طبی مدد حاصل کرتی ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی طرح بھارت میں دماغی صحت پر بات کرنا شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے۔

بھارت میں ایسی خواتین زیادہ ہیں، جو اسی معاشرتی دباؤ کے باعث اپنی کیفیات اور احساسات کو اپنے تک ہی محدود رکھتی ہیں۔ کھل کر بات کرنے کی وجہ سے ایسی خواتین مزید ذہنی ناآسودگی اور خلفشار کا شکار ہو سکتی ہیں۔

ماہر نفیسات ٹینا گپتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈپریشن  کے بارے میں عوامی سطح پر آگاہی نہ ہونے کے باعث ایسے لوگ زیادہ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں، جو اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ پاگل پن کے لیبل سے بچنے کی خاطر اپنی کنڈیشن چھپاتے ہیں لیکن اس کے دور رس سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

ٹینا گپتا کہتی ہیں کہ گزشتہ برس جن لوگوں نے خودکشی کی، ان کی کیفیات میں بے یار ومدگاری اور انتہائی یاسیت کا پہلو نمایاں تھا۔ اس بات کو بنیاد بنا کر انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر انسان خودکشی کا اسی وقت سوچتا ہے، جب وہ خود کو انتہائی ناکام، بے کار یا اکیلا محسوس کرتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کو اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے ٹینا گپتا نے کہا کہ گھریلو خواتین ایک انتہائی مظلوم طبقہ ہے، جسے نہ صرف آگاہی حاصل نہیں بلکہ وہ معاشی طور پر محتاج ہونے کے علاوہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں ڈپریشن کا شکار ہونا ایک عام سی بات ہے اور یہ کیفیت کسی معمولی سے واقعے پر خودکشی پر بھی تیار کر دیتی ہے۔

معاشرہ بدلنے کی ضرورت ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو خواتین کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کی خاطر ایسی معاشرتی تبدیلیاں ضروری ہیں، جہاں انہیں روزگار کے مواقع حاصل ہوں اور ان کے پاس دل کی بات کھل کر کہنے کی آزادی ہو۔

نیلسن ونود کے مطابق یہ بھی لازمی ہے کہ معاشرہ خواتین کے ساتھ سلوک برتنے والا اپنا فرسودہ اور روایتی انداز بھی تبدیل  کرے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو خواتین کی دماغی صحت بہتر ہونا لازمی ہے کیونکہ آئندہ نسل کی سوچ میں مثبت رویوں اور اعتماد پیدا کرنے میں یہ مائیں پہلی درس گاہ ہوتی ہیں۔

مورالی کرشن(ع ب/ا ب ا)

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ انگریزی میں شائع کیا گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں