بھارت: ’آئی لو محمد‘ تنازعہ اور مسلمانوں کا احتجاج
23 ستمبر 2025
بھارت کے شہر کانپور میں اس ماہ کے اوائل میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے دوران ’آئی لو محمد‘ (مجھے پیغمبر اسلام محمد سے محبت ہے) کے نعرے پر پہلی بار تنازعہ شروع ہوا تھا، جو اب ملک کی کئی ریاستوں تک پھیل چکا ہے اور مسلمان پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے کے ساتھ ہی جلوس بھی نکال رہے ہیں۔
ریاست اتر پردیش میں پولیس نے اس سلسلے میں گزشتہ روز بھی درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے سبب ہی اب اس معاملے پر سیاسی رہنماؤں اور مذہبی تنظیموں کی توجہ مبذول ہوئی ہے۔
آئی لو محمد پر تنازعہ کیوں؟
’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘ جیسا نعرہ اچانک پورے ملک میں عوامی تحریک اور بدامنی کا باعث کیسے بن گیا؟
اس تنازعے کا آغاز ستمبر کے پہلے ہفتے میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے دوران کانپور میں ہوا تھا۔ جلوس کے دوران راستے میں ’آئی لو محمد‘ کا بھی ایک بینر لگایا گیا، جس پر مقامی ہندوؤں نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ ان تقریبات کے لیے روایتی طور پر استعمال ہونے والے مقام پر یہ ایک ''نئی روایت یا اصطلاح‘‘ متعارف کرائی جا رہی ہے۔
اس موقع پر ہندوؤں کی جانب سے کی جانے والی شکایت پر پولیس نے فوری طور پر مداخلت کی اور کہا کہ ملکی قوانین مذہبی جلوسوں میں نئی رسم و رواج کو متعارف کرانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور اسی لیے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
پولیس حکام کا موقف ہے کا مقدمہ ’’آئی لو محمد‘‘ کے بینر کے خلاف نہیں بلکہ دو فرقوں کے درمیان اختلاف کے سبب درج کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد تنازعہ اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب ہندو اور مسلم دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر متنازعہ پوسٹرز پھاڑنے کا الزام عائد کیا۔ اس موقع پر بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ثالثی کی کوشش بھی کی تاہم جو کامیاب نہیں ہو سکی۔
ایک ہفتے بعد کانپور پولیس نے 24 افراد کے خلاف ایک نیا رواج متعارف کرانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے الزام میں مقدمات درج کیے۔ مسلمانوں نے پولیس کی اس کارروائی پر جانب داری کا الزام عائد کیا اور مقامی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا۔
اس پر رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بطور احتجاج ایک پوسٹ شیئر کی اور لکھا کہ ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘‘ کہنا جرم نہیں ہے۔ انہوں نے پولیس کی کارروائی پر بھی تنقید کی، جس سے وسیع تر بحث چھڑ گئی۔
پولیس کی کارروائی کے تناظر میں یو پی میں مسلم نوجوانوں نے جلوس نکالے جن میں مظاہرین ’’آئی لو محمد‘‘ کے بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ اس دوران کچھ جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں پولیس نے پھر کئی مقدمات درج کیے اور گرفتاریاں ہوئیں۔
حکومت کی جانب سے سختی برتنے کے خلاف مسلمانوں نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے اتر پردیش کے مختلف اضلاع تک پھیل گیا اور اب یہ سلسلہ مہاراشٹر، اترا کھنڈ اور گجرات سمیت متعدد ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ تفریقی برتاؤ ہو رہا ہے اور مذہب کے نام پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کا ردعمل
سماج وادی پارٹی کے ترجمان ابھیشیک باجپئی کا کہنا ہے کہ پولیس کی ناکامی نے اس احتجاج کو جنم دیا ہے اور پارٹی نے اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چاہے وہ ’’میں رام سے محبت کرتا ہوں‘‘ ہو یا ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘‘ سب کو اس کی آزادی ہونی چاہیے۔
بی جے پی کے ترجمان نے پولیس کی کارروائی کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ پولیس کو نشانہ بنانے یا قانون کی خلاف ورزی کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے اس معاملے کو مذہبی آزادی اور اظہار رائے کا معاملہ قرار دیا۔
دیگر مذہبی رہنماؤں نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے آئینی حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔