بھارت: آرمی پر اخراجات کم کرنے کی تجویز
19 اکتوبر 2020بھارت میں آرمی کی مختلف تقریبات پر ہونے والے'اخراجات کو کم کرنے‘ اور 'وسائل کے بہتر استعمال‘ کے مقصد سے حکومت نے بعض تجاویز پیش کی ہیں لیکن ان کی وجہ سے فوج میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔
حکومت نے اخراجات کو کم کرنے کے نام پر جن فوجی تقاریب کو بند کرنے یا انہیں مختصر کرنے کی تجویز پیش کی ہے ان میں آرمی ڈے پریڈ، ٹیریٹوریل آرمی ڈے پریڈ، کرگل وجئے دیوس(یوم فتح)، مختلف رجمنٹوں میں ہونے والی مخصوص تقاریب حتیٰ کہ یوم جمہوریہ تقریبات میں فوجی بینڈوں کی تعداد کم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
یہ تجاویز افواج کے موجودہ طور طریقے کا داخلی جائزہ لینے کے بعد تیار کی گئی ایک جائزہ رپورٹ کا حصہ ہیں۔ یہ رپورٹ فوج کے اہم اداروں، کمانڈ ہیڈکوارٹرز اور آرمی کے اہم ڈائریکٹوریٹ وغیرہ کو بھیج دی گئی ہے۔
بھارتی روزنامے انڈین ایکسپریس نے بھارتی فوج میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ رپورٹ افرادی قوت کا بہتر استعمال نیز مالی اور مادی وسائل سے خاطر خواہ استفادہ کرنے کے مقصد سے تیار کی گئی ہے لیکن ان تجاویز نے بھارت کے فوجی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
”افرادی قوت اوروسائل کا بہتر استعمال اور انڈین آرمی میں مروج طریقوں اور سہولیات کا جائزہ" کے عنوان سے پیش کردہ تجاویز میں 15 جنوری کو ہونے والی آرمی ڈے پریڈ اور 9اکتوبر کو ٹریٹوریل آرمی ڈے پریڈ کو بند کردینے کی تجویز بھی شامل ہے۔
تجویزمیں کہا گیا ہے کہ 16دسمبر کو منایا جانے والا وجئے دیوس اور چھبیس جولائی کو منایا جانے والا کرگل وجئے دیوس کوزیادہ شور شرابے اور شان و شوکت سے نہ منایا جائے۔ رپورت میں واضح کیا گیا کہ ان تقاریب کا مقصد فوجیوں میں جوش پیدا کرنا ہے، اس لیے 'غیر فوجی انداز‘ کو تقاریب کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔
خیال رہے کہ وجئے دیوس بھارت اور پاکستان کے درمیان 1971کی جنگ، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تھا، میں بھارت کی کامیابی اور کرگل وجئے دیوس، 1999میں کشمیر کے کرگل میں ساٹھ دنوں سے زیادہ عرصے تک چلنے والی جنگ کے سولہ جولائی کو اختتام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
جنوری کو دہلی کے راج پتھ پر منعقد کیے جانے والے یوم جمہوریہ پریڈ میں فوجی بینڈ کی تعداد تیس سے گھٹا کر اٹھارہ کر دینے کو تجویز کیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ یوم جمہوریہ پریڈ کے موقع پر مارچ کرنے والے فوجی دستوں کی تعداد بارہ سے کم کرکے چھ کی جاچکی ہے لیکن فوجی بینڈوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
ملک کے مختلف حصوں میں قائم فوج کی مختلف رجمنٹیں اپنی اپنی کلر پرزینٹیشن کی تقریبات منعقد کرتی ہیں۔ یہ اروایتی تقاریب کا سلسلہ ہے، جس کا آغاز برطانوی آرمڈ فورسیز نے کیا تھا اور آج بیشتر دولت مشترکہ ممالک میں اس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ا س موقع پر مسلح افواج کی کسی ایک رجمنٹ کو نیا رجمنٹل کلر پیش کیا جاتا ہے۔ حکومت نے اب تجویز پیش کی ہے کہ یہ تقاریب ملک کے مختلف حصوں میں الگ الگ تاریخوں میں منعقد کرنے کے بجائے سال میں صرف ایک مرتبہ، راشٹرپتی بھون(صدارتی محل) میں منعقد کی جائے جہاں صرف یونٹوں کے نمائندے اپنے رجمنٹ کے کرنل کے ساتھ شریک ہوں۔
اسی طرح آرمی ہیڈکوارٹرز اور دہلی میں واقع مختلف فوجی یونٹوں کے لیے اعزاز دینے کی مختلف تقاریب کے بجائے اب صرف ایک تقریب دہلی میں منعقد کی جائے اور اس کی صدارت وائس چیف آف آرمی اسٹاف کریں۔ کمان کی سطح پر بھی اس طرح کی تقریب اب سال میں صرف ایک بار منعقد کی جائے۔
بھارتی فوج موجودہ روایت کے مطابق فوجی یونٹیں کسی جنگ میں کامیابی اور یوم تاسیس کے سالانہ پروگرام بھی منعقد کرتی ہیں لیکن ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک تقریب کا انتخاب کریں۔ اس کے علاوہ یوم تاسیں کے موقع پر تقریب پہلے کے مقابلے مختصر ہوگی اور مہمانوں کو کوئی تحفہ نہیں دیا جائے گا۔
اخراجات کو کم کرنے کے لیے کلچرل اور ڈانس ٹروپس، روایتی مارشل آرٹ کی ٹیموں اور جاز بینڈ کی یونٹوں کو ختم کردینے کی تجویز ہے۔ اب انہیں صرف 'مشغلہ‘ کے طور پر جاری رکھا جاسکے گا اور اس کی سرگرمیاں یونٹ تک ہی محدود رہیں گی۔ فی الوقت یہ ٹروپ یا ٹیمیں ملک کے مختلف حصوں کے دورے کرنے کے علاوہ مقابلوں میں حصہ بھی لیتی ہیں۔
کسی ایک پرامن مقام پر مستقل طور پر قائم ایک سے زائد آفیسرز میس کو صرف ایک میس میں ضم کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اسی طرح کسی ایک پرامن مقام پر واقع ایک سے زائد سی ایس ڈی کینٹینوں کو ختم کرنے ایک کینٹین بنانے کو بھی تجویز کیا گیا ہے۔
ایک سینئر آرمی افسر کا کہنا ہے کہ ان تجاویز کے سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ اس ماہ کے اواخر میں نئی دہلی میں ہونے والے آرمی کمانڈرز کانفرنس میں کیا جائے گا۔
سابق میجر جنرل ہرشا ککڑ کا کہنا ہے کہ تمام تر مشکلات اور دشواریوں کے باوجود بھارتی مسلح افواج بلاشبہ اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گی لیکن حکومت کو ایسے اقدامات یقینی بنانے چائییں جن سے فوج کا حوصلہ بلند رہے۔