بھارت: اجتماعی زیادتی اور قتل پر وومن کمیشن کا متنازعہ بیان
صلاح الدین زین نئی دہلی
8 جنوری 2021
بھارت میں اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے ایک واقعے پر وومن کمیشن کے متنازعہ بیان پر شدید بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ خاتون ایک سادھو سے ملنے مندرگئی تھیں جہاں مبینہ طور پر ان سے زیادتی کی گئی اور بعد میں انہیں قتل کر دیا گیا۔
اشتہار
’نیشنل کمیشن فار وومن‘ کی ایک رکن کا کہنا تھا کہ اگر خواتین تنہا باہر جانے سےگریز کریں تو ان کی جان بچ سکتی تھی۔ صورت حال کی سنگینی اور واقعے کے جائزے کے لیے خواتین کے کمیشن نے اپنی ایک رکن چندر مکھی دیوی کو متاثرہ خاندان سے ملاقات کے لیے بدایوں بھیجا تھا۔
متنازعہ بیان
کمیشن کی رکن چندر مکھی نے میڈیا سے بات چيت کے دوران ایک متنازعہ بیان میں کہا، ’’ایک خاتون کو وقت کا خیال رکھنا چاہیے اور شام کے وقت اگر اس پر باہر جانے کا دباؤ بھی ڈالا جائے تو بھی قطعی تنہا باہر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال سے،’’اگر متاثرہ خاتون شام کو تنہا باہر نا جاتیں یا پھر کسی کے ساتھ جاتیں تو اس واقعے سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ پہلے سے طے شدہ پروگرام لگتا ہے کیونکہ انہیں فون پر کال کی گئی تھی۔ وہ باہر گئیں تو پھر ان کے ساتھ یہ حال ہوا۔‘‘
چند روز قبل ریاست اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں 50 سالہ ایک خاتون سادھو سے ملنے مندر گئی تھیں، جہاں سادھو نے مبینہ طور پر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی اور ان پر تشدد کیا، جس سے ان کی موت ہوگئی۔ اس سلسلے میں پولیس نے اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے الزام میں سادھو سمیت بعض افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
اچھا شوہر کيسے بننا ہے؟ اسکول جا کر سيکھيں
03:26
متعدد حلقوں کی جانب سے وومن کمیشن کے اس متنازعہ بیان پر یہ کہہ کر سخت نکتہ چینی ہو رہی ہے کہ ایک عورت کو اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی اور کسی بھی وقت جانے کا نہ صرف حق حاصل ہے بلکہ اس کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی سماج اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔
یہ بیہودہ بیان ہے، پرشانت کمار
مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات نے اس بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ معروف صحافی پرشانت کمار نے اس بیان کو بیہودہ بتاتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ قومی خواتین کمیشن کی ایک رکن خود خواتین کو اس بات کا لیکچر دے رہی کہ انہیں کب گھر سے نکلنا چاہیے اور کب نہیں۔
بالی وڈ کی معروف فلم ساز اور اداکارہ پوجا بھٹ نے قومی خواتین کے کمیشن کی صدر ریکھا شرما سے پوچھا کہ کیا بدایوں ریپ معاملے میں کمیشن کا بھی یہی موقف ہے کہ’’غلطی اس متاثرہ خاتون کی ہے جو اپنی مرضی سے باہر گئی تھیں؟‘‘
اشتہار
بیان سے لاتعلقی
اس طرح کی شدید نکتہ چینی کے بعد خواتین کے قومی کمیشن ریکھا شرما نے وضاحت پیش کی اور کمیشن کی رکن کے متنازعہ بیان سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ ہماری ایک رکن نے کیسے اور کیوں اس طرح کی بات کہی لیکن خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی وقت کہیں بھی جانے کا حق حاصل ہے۔ یہ سماج اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کے تحفظ کا انتظام کرے۔‘‘
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
بدايوں اجتماعی جنسی زیادتی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی ہے، جس کے مطابق متاثرہ خاتون کے جسم کے پوشیدہ حصوں پر شدید زخم پائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خاتون کے پیر کی ہڈی بھی ٹوٹی ہوئی تھی جبکہ خون زیادہ بہنے کی وجہ سے انہیں صدمہ پہنچا اور ان کی موت ہوگئی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بعض علاقائی پولیس اہلکاروں نے کارروائی کرنے میں بھی لاپرواہی برتی جس کی وجہ سے محکمے نے ان کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔
متاثرہ خاندان کا الزام
متاثرہ خاندان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ انہوں نے اس موت کے واقعے کے خلاف شکایت درج کرنے کے لیے دو بار مقامی تھانے سے رجوع کیا تاہم پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بجائے انہیں واپس کر دیا گيا۔ متاثرہ خاتون کے ایک بیٹے نے مقامی میڈيا سے بات چیت میں کہا،’’جب دو بار ہمیں واپس بھیج دیا گيا تو ہم نے پی سی آر کے121 پر کال کی، تب پولیس آئی اور کارروائی ہوئی۔‘‘
کانگریس پارٹی سمیت جزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے اس واقعے کی عدالتی تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے متاثرہ گاؤں کے دورے کے لیے اپنے وفود بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
بھارت: خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے 2019 میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مدت میں فی ایک لاکھ پر جرائم کی شرح 58.8 فیصد سے بڑھ کر 62.4 فیصد ہوگئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury
روزانہ 88 ریپ
بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز، اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ تاہم بیشتر واقعات میں پولیس پر کیس درج نہیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
تصویر: imago images/Pacific Press Agency
دلتوں کا اوسط گیارہ فیصد
بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ طبقات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اپنے ہی دشمن
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 30.9 فیصد معاملات میں ملزم قریبی رشتے دار تھے۔ سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/
کینڈل لائٹ مظاہرے
جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ اگر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس واقعہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اگلے واقعہ تک سب کچھ ’شانت‘ ہوجاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra
نربھیا کیس
دسمبر 2012 کے دہلی اجتماعی جنسی زیادتی کیس کے بعد پورے بھارت میں مظاہرے ہوئے۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس واقعہ کے بعد حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تاہم مجرموں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بیٹی بچاو
وزیر اعظم نریندرمودی نے 2015 ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ اسکیم شروع کی جس کا مقصد صنفی تناسب کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان کے مخالفین طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ’’مودی جی نے تو پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ’بیٹی بچاو‘۔ اب یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی کو خود بچائے۔“
تصویر: Reuters/Sivaram V
قانونی جوڑ توڑ
جنسی زیادتی کے ملزمین کو سزائیں دینے کی شرح میں 2007 کے بعد سے زبردست گراوٹ آئی ہے۔ 2006 میں سزاوں کی شرح 27 فیصد تھی لیکن 2016 میں یہ گھٹ کر 18.9 فیصد رہ گئی۔ ملزمین قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
تصویر: Reuters
30 فیصد ممبران پارلیمان ملزم
جنسی زیادتی کے ملزم سیاسی رہنماوں کو شا ذ ونادر ہی سزائیں مل پاتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا کے تقریباً 30 فیصد موجودہ اراکین کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اغوا جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
وحشیانہ جرم
جنسی درندے کسی بھی عمر کی خاتون کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں چند ماہ کی بچی سے لے کر 80 برس کی بزرگ خواتین تک شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan
ہر سطح پر اصلاح کی ضرورت
ماہرین سماجیات کا کہتے ہیں کہ صرف قانون سازی کے ذریعہ جنسی زیادتی کے جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی بیداری اور نگرانی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی