بھارت: اسٹوڈنٹس احتجاج میں یونیورسٹی اساتذہ بھی شامل
16 فروری 2016گزشتہ چند روز میں یہ احتجاجی سلسلہ ملک کی دیگر بڑی یونیورسٹیوں تک بھی پہنچ گیا ہے اور اب اس میں یونیورسٹی اساتذہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ طالب علموں کے ان مظاہروں کو بھارت میں پچیس برس بعد سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے۔ نیوز ایجسنی روئٹرز کے مطابق یہ مظاہرے دراصل مودی کی قوم پرست حکومت اور بائیں بازو کے لبرل گروپوں کے درمیان ایک نظریاتی جنگ ہے۔ ناقدین مودی حکومت کی کارروائیوں کو 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی طرف سے مخالفین کو کچلنے کے لیے لگائی جانے والی ایمرجنسی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
آج کے مظاہروں میں شریک جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر گلشن سچدیو کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’لوگ اصل مسئلے کو سمجھے بغیر ہی اس کے بارے میں رائے زنی کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی یونیورسٹی ہے، جہاں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور اظہار رائے کرتے ہیں۔ یہاں سب کو آنے کی اجازت ہے اور وہ کہنے کہ بھی، جو وہ محسوس کرتے ہیں۔‘‘
بھارتی حکومت نے بائیں بازو کے اسٹوڈنٹ یونین لیڈر کنہیا کمار کو جمعے کے روز گرفتار کر لیا تھا۔ کنہیا کمار پر الزام ہے کہ اس نے کشمیری رہنما افضل گرو کی پھانسی کے تین برس مکمل ہونے پر نکالی جانے والی ایک ریلی میں شریک ہوتے ہوئے بھارت مخالف نعرے لگائے جبکہ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
اس اسٹوڈنٹ کی گرفتاری نے بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ایک نئی تحریک کھڑی کر دی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ مودی کی قوم پرست حکومت اختلاف رائے کو دبانے کے لیے برطانوی دور کا بغاوت سے متعلق بنایا ہوا قانون استعمال کر رہی ہے۔
اس سلسلے میں پیر کے روز پرتشدد جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا، جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے لیڈر کنہیا کمار کو عدالت میں لایا گیا اور اس وقت وہاں موجود ان کے حمایتیوں پر قوم پرستوں نے حملہ کر دیا۔ ملکی اپوزیشن کانگریس پارٹی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ کرنے والے نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حمایتی قوم پرست تھے۔ اس حملے کا نشانہ طالب علموں، اساتذہ اور ان صحافیوں کو بنایا گیا، جو وہاں موجود تھے۔ اپوزیشن کے مطابق حملے کے وقت پولیس نے صرف خاموش تماشائی بننے کا کردار ادا کیا ہے۔
آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے اوم پرساد کا کہنا تھا کہ اس یونیورسٹی کو منظم طریقے سے ’بدنام‘ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیوں کہ بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج منگل کے روز بھی دائیں بازو کے قوم پرستوں کی طرف سے یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کیا گیا اور وہاں کے اسٹوڈنٹس کو ’غدار‘ قرار دیا گیا۔
اس یونیورسٹی کے کچھ طالب علموں نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک کلاسوں میں نہیں بیٹھیں گے، جب تک کمار کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔