بھارت اور امریکا کے مابین سیٹلائٹ ڈیٹا پرعسکری معاہدہ
23 اکتوبر 2020اس سیٹلائٹ ڈیٹا عسکری معاہدے پر اگلے ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر کے دورے کے دوران دستخط کیے جانے کی امید ہے۔ یہ دونوں امریکی رہنما اپنے بھارتی ہم منصب بالترتیب سبرامنیم جے شنکر اور راج ناتھ سنگھ کے ساتھ انڈیا۔امریکا2+2 وزارتی ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے دہلی آرہے ہیں۔
بھارت۔امریکا تعلقات میں گرمجوشی
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مدنظر ایشیائی خطے میں بھارت کے رول کے حوالے سے امریکا کے نقطہ نظر میں قابل ذکر تبدیلی اور گرمجوشی آئی ہے۔ امریکا کے نائب وزیر خارجہ اسٹیفن ای بیگن گزشتہ 12 اکتوبر کو بھارت کے تین روزہ دورے پر آئے تھے جبکہ اس سے ایک ہفتے قبل بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے ٹوکیو میں مائیک پومپیو سے ملاقات کی تھی۔ اور اب 26 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھارت کے دو روزہ دورے پر آرہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ملاقاتیں، مذاکرات اور دورے امریکا کی جانب سے چین کے خلاف تقریباً ہر محا ذ پر بالواسطہ جنگ شروع کر دینے کے بعد ہوئے ہیں اور انہیں بیجنگ کے لیے ایک واضح اسٹریٹیجک اشارے کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ تجزیہ کار تاہم بھارت اور امریکا کے مابین اس تیزی سے بڑھتی ہوئی قربت کو تشویش کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار اسد مرزا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا ”امریکی انتظامیہ جس انداز میں بھارت پرخصوصی توجہ مرکوز کررہی ہے اور اس نے دونوں ملکوں کے اعلی سطح کے وزراء اور حکام کے درمیان بات چیت کا سلسلہ تیز کردیا ہے، اس سے بھارت میں امریکا کی اچانک بڑھتی ہوئی دلچسپی پر تشویش ہونا لاحق ہے۔" اسد مرزا اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”پہلی بات تویہ سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی انتظامیہ بھارت۔ بحرالکاہل خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ازسرنو اقدامات کر رہا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ (QUAD) ممالک کے اتحاد کو خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ امریکا دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کے درمیان مجوزہ 2+2 مذاکرات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔"
امریکا نے رواں ہفتے تائیوان کو ہتھیاروں کے تین نظام فروخت کرنے کی منظوری دے کر چین کو مزید ناراض کردیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو محدود کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ سکیورٹی تعلقات کو مزید مستحکم کررہا ہے۔ امریکی کمپنیاں 2007 کے بعد سے اب تک بھارت کو 21 ارب ڈالر سے زیادہ کے فوجی سازو سامان فروخت کرچکی ہیں اور امریکا بھارت کو ایسے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے زور دے رہاہے جن کے تحت جدید ترین فوجی آلات کے بہتر استعمال کے لیے حساس اور خفیہ معلومات کے تبادلے کی گنجائش ہوگی۔
2+2 وزارتی مذاکرات
بھارت بھی مجوزہ 2+2 وزارتی مذاکرات کو کافی اہمیت دے رہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے جمعرات کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”تیسری بھارت۔امریکا 2+2 وزارتی مذاکرات میں باہمی مفادات کے حوالے سے اہم امور پر جامع تبادلہ خیال کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک علاقائی اور عالمی امور پر بھی اپنے اپنے خیالات کا تبادلہ کریں گے۔"
انوراگ سریواستوا کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں ستمبر 2018 اور واشنگٹن میں دسمبر 2019 میں ہونے والے سابقہ دو مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور تمام شعبوں میں ادارہ جاتی فریم ورک کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت او رامریکا نے 2010 میں خارجہ اور دفاع کے وزیروں کی سطح پر 2+2 مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت بحری، سائبر اور خلائی سکیورٹی جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ بات چیت وزارتی سطح پر ہوتی ہے اس لیے اس میکانزم کے تحت مزید امور کا احاطہ کیے جانے کی بھی توقع رہتی ہے۔
مودی کی منظوری
بھارتی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی کی کابینہ نے امریکا کے ساتھ سیٹلائٹ ڈیٹا عسکری معاہدے کو گزشتہ دنوں منظوری دے دی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت کو مختلف فضائی، میدانی اور بحری ڈیٹا تک رسائی کا موقع ملے گا۔ بھارتی وزارت دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ”یہ ایک بنیادی معاہدہ ہے جس پر امریکا نے اپنے کئی اتحادیوں کے ساتھ دستخط کرلیے ہیں۔"
بھارتی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا اور بھارت کے درمیان پہلے ہی خفیہ اطلاعات کا تبادلہ ہو رہا ہے اور خاص کر خطے میں چین کی سرگرمیوں سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان اس اشتراک میں بھارتی سرحد پر چینی فوج کی تعیناتی اور گہرے پانیوں میں ماہی گیری سمیت چینی بحریہ کی سرگرمیوں کی معلومات شامل ہیں۔