بھارت اور امریکہ کے مابین سٹریٹیجک ڈائیلاگ
1 جون 2010جنوبی ایشیا میں جاری عدم استحکام کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے امریکہ نے خطے کے ملکوں سے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس سلسلے میں تین جون کو بھارت کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو واشنگٹن مدعو کیا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک بات چیت کی تھی۔ لیکن بھارت کے ساتھ بات چیت اس لحاظ سے مختلف ہے کہ امریکہ تجارت ‘ سائنس و ٹیکنالوجی اور توانائی سمیت بہت سارے شعبوں میں بھارت کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وشنو پرکاش نے اس میٹنگ کو نہایت اہم قرار دےتے ہوئے کہا کہ ”یہ اسٹریٹیجک مذاکرات بھارت اور امریکہ کے درمیان عالمی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مضبوط کریں گے، اور اس کے تحت نہایت اہم میکانزم کا جائزہ لیا جائے گا، اور ہمارے وسیع تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔‘‘
مذاکرات کے دوران وزیر خارجہ کے ساتھ پلاننگ کمیشن کے نائب چیئرمین بھی ہوں گے، جو ہند۔ امریکہ اقتصادی مذاکرات، ہند۔ امریکہ زرعی مذاکرات اور ہند۔ امریکہ توانائی مذاکرات کے شریک کار چیئرمین بھی ہیں۔ وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل مسٹر کپل سبل بھی واشنگٹن جا رہے ہیں، اور وہ تعلیمی مذاکرات کے شریک کار چیئرمین ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر شری پرتھوی راج چوان بھی وہاں موجود ہوں گے۔
یہ لوگ اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کریں گے، جو کہ مذاکرات کے جاری عمل کا حصہ ہے اور یہ سبھی وزرا 3 جون کو اسٹریٹیجک مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ اس ڈائیلاگ کے حوالے سے بین الاقوامی امور کے ماہر رنجیت کمار نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:’’اس پہلے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں دونوں ممالک افغانستان کے بارے میں بات کریں گے‘بھارت یہ جاننا چاہے گا کہ امریکہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے رویے کو کس نظریے سے دیکھتا ہے‘اس کے علاوہ بھی بہت سارے مسائل ہیں جیسے بہت سارے اداروں کو ٹکنالوجی سپلائی پر امریکہ نے پابندی لگا رکھی ہے‘ بھارت چاہے گا کہ ان اداروں پر عائد ٹیکنالوجی پابندی ختم ہو“۔
بھارت او رامریکہ کے درمیان دفاعی تعاون کی بھی کافی گنجائش ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں نے کئی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔رنجیت کمار نے اس حوالے سے کہا کہ:”دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کافی گہرے ہوچکے ہیں ۔ بھارت نے کئی ارب ڈالر کے دفاعی ساز و سامان امریکہ سے خریدے ہیں۔بہت بڑا ٹرانسپورٹ طیارہ گلوب ماسٹر ہے، جس کا سودا ہونے والا ہے۔بھارت نے امریکہ سے حال ہی میں بحریہ کے لئے جہاز بھی خریدا ہے۔“
لیکن اس دفاعی تعاون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ امریکہ بعض ایسے معاہدوں پر بھی دستخط کرنا چاہتا ہے جن کے لئے بھارت تیار نہیں ہے۔یہا ں مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفینس اسٹڈیز اینڈ انالسس میں امرےکی امور کے ماہر چیرین سیمویل کہتے ہیں”امریکہ بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے لیکن وہ اس سے قبل بعض معاہدوں پر دستخط کروانا چاہتا ہے۔
ان میں ٹیکنالوجی کو کسی دوسرے ملک کو منتقل نہیں کرنے کی ضمانت سے متعلق معاہدہ بھی شامل ہے کیوں کہ امریکہ اپنی ٹکنالوجی کے تحفظ کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ لیکن ہمارا ماننا ہے کہ اس طرح کے معاہدوں پر دستخط سے ہماری خودمختاری پر آنچ آتی ہے۔اس لئے ہم ان معاہدوں کے متن میں ایسے الفاظ کا انتخاب کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو دونوں ہی ملکوں کے لئے قابل قبول ہو۔“
خیال رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک افسران کی سطح پر ہی اسٹریٹیجک ڈائیلاگ ہوتے رہے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے جب وزراءکی سطح پر بات چیت ہوگی۔جب ہم نے اسٹریٹیجک امور کے ماہر رنجیت کمار سے پوچھا کہ آخر امریکہ بھارت سے کیا امیدیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت پاکستان کے خدشات کو زائل کرے۔
اس اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں دونو ں ملکوں کے درمیان ہوئے نیوکلیائی معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں بھی بات چیت ہوگی۔ اس کے نفاذ سے پہلے بھارتی پارلیمان کو نیوکلیائی جوابدہی بل منظور کرنا ہے ۔ اس بل پر یہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔
رپورٹ : افتخار گیلانی‘ نئی دہلی
ادارت : شادی خان سیف