1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور برطانیہ کے درمیان معاہدہ، ہزاروں نوجوانوں کو فائدہ

آسیہ مغل
5 مئی 2021

بھارت اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے  کے تین ہزار نوجوان پروفیشنلز کو ہر سال اپنے اپنے یہاں ملازمت کے مواقع فراہم کریں گے۔

G7-Gipfel in Frankreich Boris Johnson und Narendra Modi
تصویر: imago images/i Images

یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے بعد بھارت اور برطانیہ نے باہمی اقتصادی، ثقافتی اور دیگر تعلقات کو مستحکم کرنے کے معاہدوں پر منگل کے روز دستخط کیے۔ دونوں ملکوں نے غیر قانونی مہاجرت کے خلاف کارروائی کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے برطانوی ہم منصب بورس جانسن کے ساتھ ورچوئیل میٹنگ میں باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار سندیپ چکرورتی نے بتایا کہ مہاجرت اور نقل وحرکت سے متعلق ہونے والے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ اپنے یہاں ہر برس تین ہزار نوجوان بھارتی پروفیشنلز کو ملازمت فراہم کرے گا۔ بھارت بھی اسی طرح اپنے یہاں تین ہزار برطانوی نوجوانوں کو ملازمت دے گا۔ تاہم دونوں حکومتیں باہمی اتفاق رائے سے اس تعداد میں کمی بیشی کرسکتی ہیں۔

تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Cristofori

ینگ پروفیشنل اسکیم

 اس اسکیم کے تحت اٹھارہ سے تیس برس کی عمر کے ہونہار اور بہترین پروفیشنلز کوصلاحیتوں اور ہنر کی بنیاد پر برطانیہ اور بھارت میں ملازمت کا موقع حاصل ہوگا۔ 

اس کے لیے تاہم یہ شرط ہوگی کہ انہوں نے متعلقہ ملکوں میں یونیورسٹی یا اس کے مساوی کسی ادارے میں کم از کم تین برس تک تعلیم یا تربیت حاصل کی ہو اور وہ میزبان ملک میں بولی جانے والی زبان میں اظہار خیال کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

اس اسکیم کے تحت ملازمت حاصل کرنے والے پروفیشنلز کو اپنے ساتھ اپنے بچوں یا کسی دیگر رشتہ دار کو رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کا اس حوالے سے کہنا تھا، ''یہ تاریخی معاہدہ ہمیں اور ہمارے قریبی شریک کار بھارت سرکار کودونوں ملکوں میں رہنے کے خواہش مند ہزاروں افراد کو بھیجنے کا موقع فراہم کرے گا تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرسکیں اور ایک دوسرے کے تجربات اور ثقافت سے استفادہ کرسکیں۔''

ہر سال ہزاروں بھارتی طلبہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں لیکن نئی دہلی کی شکایت ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں ملازمت کے مواقع دستیاب نہیں ہوتے۔

غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی

اس معاہدے سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے یہاں غیر قانونی طور پر مقیم ایک دوسرے کے شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔

دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے یہاں غیر قانونی مہاجرت کو کم کرنے کے  میں کام کرنے کا وعدہ کیا۔

 پریتی پٹیل کا کہنا تھا، ''اس معاہدہ سے برطانوی حکومت کو ایسے لوگوں کو باہر نکالنے میں سہولت ہوگی جنہیں برطانیہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور ہمارے سسٹم کو نقصان پہنچانے والو ں کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد ملے گی۔''

مہاجرت اور غیرقانونی تارکین وطن کا معاملہ بھارت اور برطانیہ کے درمیان ایک عرصے سے تنازع کا سبب رہا ہے۔ سن 2018 میں بھی اسی طرح کی ایک تجویز پیش کی گئی تھی لیکن اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے تجویز مسترد ہوگئی تھی۔

تصویر: Robin Utrecht/picture alliance

برطانیہ کا دعوی ہے کہ اس وقت تقریباً ایک لاکھ بھارتی شہری غیر قانونی طورپر برطانیہ میں مقیم ہیں لیکن بھارت اس تعداد کو مسترد کرتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور بورس جانسن نے سن 2030 تک صحت، ماحولیات، تجارت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور دفاع کے شعبوں میں ایک روڈ میپ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

بھارت اور برطانیہ کے درمیان اس وقت سالانہ 23ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں نے سن 2030تک اسے بڑھا کر دوگنا کرنے کا عزم  کیا۔

خیال رہے کہ بورس جانسن گزشتہ ماہ بھارت کے دورے پر آنے والے تھے لیکن بھارت میں کورونا وائرس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی وبا کے مدنظر انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کردیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں