1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رافیل لڑاکا طیاروں کا معاہدہ ہے کیا؟

8 اگست 2021

فرانس بھارت کو مزید اپنے لڑاکے طیارے رافیل فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ نئی دہلی کو اس ڈیل پر بدعنوانی اور اقرباء پروری کے الزامات کا سامنا ہے تاہم پیرس حکومت اس کے باوجود اس معاہدے پر قائم ہے۔

Frankreich Übergabe erster Rafale Kampfjet an Indien
تصویر: AFP/G. Gobet

بھارت خود کو درپیش جغرافیائی چیلنجز کے پیش نظر اپنی عمر رسیدہ فوج کو جدید اور مزید طاقت ور بنانے کے لیے ممکنہ اقدامات کر رہا ہے۔

نئی دہلی حکومت کئی برسوں پہلے ہی یورپی ملک فرانس کے ساتھ فرانسیسی لڑاکا طیاروں رافیل کا معاہدہ کر چُکی ہے اور اسے بھارت کے سب سے بڑے دفاعی معاہدوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ تاہم اس معاہدے کی شروعات سے اب تک یہ ایک بڑا تنازعہ بنا ہوا ہے۔

2015 ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فرانس ایوی ایشن کمپنی Dassault  (داسو)سے 36 رافیل طیارے خریدنے کی ڈیل کی تھی تاکہ بھارت کی زنگ آلود فضائیہ کو جدید اور مضبوط بنایا جا سکے۔

رافال جنگی طیاروں کو بھارتی فضائیہ میں شامل کر لیا گيا

جولائی کے اواخر میں بھارتی وزیر دفاع اجے بھٹ نے میڈیا کو بتایا کے طیاروں کی ترسیل شیڈول کے مطابق ہو گی، جس کے بعد سے بھارت کو 26 طیارے مل بھی چُکے ہیں۔

بقیہ طیاروں کی رواں برس یعنی 2021 ء کے اواخر تک بھارت کو حوالگی متوقع ہے۔ تاہم 7.8 بلین یورو یا 9.4 بلین ڈالر مالیت کا یہ معاہدہ بدعنوانی اور تعصب کے الزامات کی زد میں ہے۔

2019 ء میں فرانس نے پہلا رافیل جیٹ طیارہ بھارت کے حوالے کیا تھاتصویر: Reuters/R. Duvignau

قومی مالیاتی استغاثہ کے دفتر پی این ایف کے مطابق 2 جولائی کو فرانس نے بدعنوانی کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔

پیرس ماحولیاتی معاہدے سے بھی ’بڑھ کر اقدامات‘ اٹھائیں گے، مودی

 رافیل ڈیل کیا ہے؟

مودی کا 2015 ء کا معاہدہ بھارت کے متحدہ ترقی پسند اتحاد 'یو پی اے‘ کے  کمپنی داسو کے ساتھ معادے کے کئی سال بعد ہوا، جس کی قیادت اپوزیشن کانگریس پارٹی نے کی۔

یہ مذاکرات دراصل 2012 ء میں بھارت کے میڈیم ملٹی رول کامبیٹ ایئر کرافٹ ایم ایم آر سی اے کے مقابلے میں اس فرانسیسی کمپنی کے فاتح قرار پانے کے بعد طے پایا تھا۔ اس کا مقصد بھارتی فوج کو 126 طیارے فراہم کرنا تھا۔

تاہم یو پی اے اور داسو کے مابین  نااتفاقی اس لیے پیدا ہو گئی کہ طے یہ پایا تھا کہ  108 طیارے بھارت میں سرکاری ایروناٹکس لمیٹڈ کمپنی ایچ اے ایل تیار کرے گی۔ داسو کو انڈین ایرو اسپیس کمپنی  کو ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اس پیچیدہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنے کی بھارتی کمپنی کی صلاحیتوں پر شکوک و شبہات تھے۔

 

اس دوران مودی کا نیا معاہدہ، جس کی مالیت 7.8 بلین ڈالر ہے، کے بارے میں یہ رپورٹ کافی حد تک حیرت کا سبب بنی کہ اس کا حتمی معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔

تاہم مودی اور اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے درمیان اپریل 2015 ء میں ہونے والی ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا تھا کہ 36 رافیل جیٹ طیاروں کو اڑا کر  فرانس سے بھارت پہنچایا جائے گا۔ جولائی 2015 ء میں 126 جیٹ طیاروں کا ایم ایم آر سی اے ٹینڈر ختم کر دیا گیا۔

بھارت کو جنگی طیاروں کی سپلائی: فرانسیسی فرم کامیاب

رافیل ڈیل کے خلاف بھارت میں مظاہرےتصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar

2016 ء میں مودی سرکار کی طرف سے اس نئے معاہدے کے طےپانے کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے   اپنی بڑی جیت قرار دیا۔

اس کے ساتھ ہی حکمران جماعت بی جے پی نے اپنے لیڈر مودی کو ایک کامیاب اور با صلاحیت مذاکرات کار بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔

رافیل معاہدہ متنازعہ کیوں؟

کانگریس پارٹی میں نریندر مودی کے سیاسی مخالفین نے تیزی سے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'رافیل جیٹ ‘ کی خریداری بھارت کا '' اب تک کا سب سے بڑا اسکینڈل ‘ ہے۔

کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت اس معاہدے کی قیمت اُس سے کہیں زیادہ ادا کرے گی، جو یو پی اے حکومت نے لگائی تھی۔ نیز یہ کہ بی جے پی حکومت عوامی کاروبار پر نجی بزنس کو زیادہ  ترجیح  دے رہی ہے۔

اس الزام کا اشارہ دراصل بھارت کی 'ریلائنس ایرو اسپیس کمپنی‘ کے سربراہ انیل امبانی کی طرف تھا، جو نریندر مودی سے بہت قریبی تعلق رکھنے والے بزنس مین ہیں۔ ریلائنس کمپنی کا ایروناٹکس میں کوئی سابقہ تجریہ نہیں ہے تاہم اس نے رافیل ڈیل میں بھارت کی سرکاری ایروناٹکس لمیٹڈ کمپنی ایچ اے ایل کے متبادل کے طور پر اپنی جگہ بنا لی۔

روشنی موجمدار/ ک م/ ع ب

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں