1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت اور چین میں سرحدی تجارت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
19 دسمبر 2024

بیجنگ میں بات چیت کے بعد بھارت اور چین نے سرحدی راستے سے تجارتی تبادلے اور دریاؤں پر تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ فریقین نے ہندوؤں کے مذہبی مقام کیلاش مانسروور کی یاترا دوبارہ شروع کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔

بھارت چین سرحد
سرحد پار دریاؤں سے متعلق تعاون اور نتھولا سرحدی گزرگاہ کے راستے سے تجارت دوبارہ شروع کرنے جیسے منصوبے شامل ہیںتصویر: Indian Army/AFP via Getty Images

بھارت اور چین نے بدھ کے روز ایک اہم اقدام کے تحت چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کیے، جسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی سمت میں اہم پیش رفت کہا جا رہا ہے۔ سرحدی تنازعات کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ تقریبا پانچ برسوں سے حالات کشیدہ رہے ہیں۔

نئی دہلی میں وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز بیجنگ میں بات چیت کے بعد "چھ امور کے ایک سیٹ پر اتفاق" ہوا، جس میں تبت میں واقع ہندوؤں کے ایک مقدس مقام  کیلاش مانسروور کی یاترا کی بحالی، سرحد پار دریاؤں سے متعلق تعاون اور نتھولا سرحدی گزرگاہ کے راستے سے تجارت دوبارہ شروع کرنے جیسے منصوبے شامل ہیں۔

چینی وزیر خارجہ اور بھارتی قومی سلامتی مشیر کے مابین آج اہم بات چیت

واضح رہے کہ کیلاش مانسروور کی یاترا پہاڑ کیلاش اور تبت میں مانسروور جھیل کی ایک مذہبی یاترا ہے، جو ہندوؤں، جینوں، تبتیوں اور بون مذہب کے پیروکاروں کے لیے بہت ہی مقدس زیارت سمجھی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے سبب کئی برسوں سے بھارتی پیروکار یاترا سے محروم رہے ہیں۔ 

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان بیجنگ میں ہونے والی بات چیت کے بعد دونوں فریقوں کی جانب سے اس کا اعلان کیا گیا ہے۔

بھارت کا ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان

اطلاعات کے مطابق بات چیت کے دوران چینی حکام نے بتدریج ادارہ جاتی بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے اور معیشت، تجارت نیز ثقافت جیسے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کا مقصد دوطرفہ تعلقات کو مستحکم اور تعمیری ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق وانگ یی نے کہا کہ پانچ سالوں میں اسپیشل ریپرزینٹیٹیو (ایس آرز) کی پہلی باضابطہ میٹنگ " کافی ثمر آور اور قابل قدر" رہی۔

پاکستان اور چین کے مابین حالیہ سفارتی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟

اگلی ملاقات بھارت میں

فریقین نے اگلے سال بھارت میں خصوصی نمائندوں کی میٹنگوں کے اگلے دور کو بلانے پر اتفاق کیا، جس کی تاریخ کا تعین سفارتی ذرائع سے کیا جائے گا۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور ان کے چینی ہم منصب نے برازیل میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی تھیتصویر: China Daily/REUTERS

دونوں فریقوں نے سرحدی مسائل سے نمٹنے میں حاصل ہونے والی پیش رفت کو تسلیم کیا اور متفقہ حل پر عمل درآمد جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

انہوں نے دوطرفہ تعلقات کے وسیع فریم ورک کے اندر سرحدی مسئلے سے رجوع کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا اور دونوں ممالک نے اپنے دوطرفہ تعلقات کی صحت مند اور مستحکم ترقی کو فروغ دیتے ہوئے سرحدی علاقوں میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کا عہد کیا۔

برکس اجلاس: چین اور بھارت کی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش

بھارت اور چین میں قربت کے آثار

اس سے قبل بھارتی وزارت خارجہ نے اس ملاقات کے حوالے سے کہا تھا کہ "دونوں ملکوں کے نمائندے سرحدی علاقوں میں امن و امان کے انتظام پر تبادلہ خیال کریں گے اور سرحدی سوال کا ایک منصفانہ، معقول اور باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کریں گے، جیسا کہ کازان میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات کے دوران اتفاق کیا گیا تھا۔"

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد، جو پانچ سال کے بعد ان کی پہلی ملاقات تھی، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور ان کے چینی ہم منصب نے برازیل میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد چین-بھارت پر مشاورت اور رابطہ کاری کے لیے ورکنگ میکانزم کی میٹنگ ہوئی۔

جرمن چانسلر کا دورہ بھارت: چین پر انحصار کم کرنے کی کوشش

مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر فوجی تعطل کا آغاز مئی 2020 میں ہوا تھا اور اس کے بعد اسی سال جون میں وادی گلوان میں ایک جھڑپ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہوا تھا۔ اس جھڑپ میں بھارت کے بیس اور چین کے کم از کم چار جوان ہلاک ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد تجارت کو چھوڑ کر دونوں ممالک کے تعلقات عملی طور پر ٹھپ ہو کر رہ گئے۔

بھارت اور چین: ہمسائے، حریف اور تجارتی پارٹنرز

15:31

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں