بھارت اور چین کا افغانستان کے لیے مشترکہ تربیتی پروگرام
15 اکتوبر 2018
بھارت اور چین نے افغان سفارت کاروں کو تربیت دینے کے لیے ایک مشترکہ تربیتی پروگرام کا اجراء کیا ہے۔ چین نے امید ظاہر کی ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان کی مدد کے لیے مستقبل میں ایسے مزید منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔
اشتہار
ایشیا کی دو بڑی طاقتوں چین اور بھارت کے درمیان اپنی نوعیت کا یہ پہلا تعاون ہے۔ ان کے آپسی تعلقات خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی دوڑ میں سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ افغانستان کے داخلی معاملات کی بات ہو تو بھارت اور چین مختلف نظریہ خیال کے حامی رہے ہیں۔ چین اپنے پرانے اتحادی پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے اور افغانستان میں استحکام لانے کا خواہشمند ہے۔ اس مقصد کے لیے چین طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔
اس کے بر عکس بھارت افغان حکومت کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے مدد اور فوجی افسروں کی تربیت اور اقتصادی منصوبوں کی مد میں پر اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ اس کا روایتی حریف بھارت، افغانستان میں اس کا اثر کم کرنے کے لیے سفارت کاری کا دائرہ وسیع کر رہا ہے۔
بھارت میں تعینات چین کے سفیر نے آج پیر 15 اکتوبر کو ایک تقریر میں کہا کہ انڈین فارن انسٹیٹیوٹ میں دس افغان سفارت کاروں کی تربیت بھارت، چین اور افغانستان کے درمیان تعاون کا پہلا قدم ہے۔ چینی سفیر کے بقول اس منصوبے پر رواں برس چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اتفاق کیا تھا۔
بھارت میں چینی سفیر لو ژاؤہوئی نے کہا، ’’یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس مشترکہ تعاون سے بھارت اور چین دونوں کو فوائد حاصل ہوں گے۔ مجھے یقین ہے مستقبل میں افغانستان کے لیے ہمارا تعاون تربیتی پروگراموں سے کہیں آگے بڑھ کر ٹھوس منصوبوں تک وسیع ہو جائے گا۔‘‘
مودی اور شی جن پنگ رواں برس چین میں ہونے والی سمٹ میں پُر امن طور پر اپنے اختلافات کا حل نکالنے پر متفق ہوئے تھے۔ گزشتہ برس چین اور بھارت کے درمیان ایک سرحدی تنازعہ شدید ہو گیا تھا۔ دونوں ممالک کے مابین اس سرحدی تنازعے کا آغاز گزشتہ سال جون میں ہوا تھا۔ چین کا الزام تھا کہ بھارتی فوجیں اپنے اتحادی بھوٹان کی سرحد کے قریب چین، بھارت اور نیپال کے سنگم پر واقع سرحدی علاقے میں چین کی سرحدی حدود میں داخل ہو گئی تھیں۔
چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ مشترکہ تعاون کا یہ بیان نئی دہلی میں بیجنگ کے سفارت خانے کے اس بیان کے ایک ہفتے بعد ہی سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک کو تحفظ تجارت کے عالمی نظام کے خلاف جنگ میں تعاون کو مزید بڑھانا چاہیے۔
ص ح / ا ب ا / نیوز ایجنسی
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔