بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر حالات اب بھی کشیدہ
22 جون 2020
بھارتی وزير اعظم کے اس بیان کے باوجود کہ بھارت میں نہ تو کوئي داخل ہوا ہے اور نہ ہی بھارت کی ایک انچ زمین کسی کے قبضے میں ہے، خطے میں فوج کی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ جاری ہے۔
اشتہار
بھارت اور چین کی سرحد پر کشیدگی کے ماحول میں اتوار کو بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے صورتحال کے جائزے کے لیے تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کی۔ حکومت نے گوکہ کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا تاہم بھارتی میڈیا میں شائع تفصیلات کے مطابق فوج کو ہدایت دی گئی ہے کہ ''بھارت کشیدگی نہیں چاہتا ہے لیکن اگر چین کوئی کارروائی کرتا ہے تو اس کا معقول جواب دینے کے لیے فوج کو کھلی اجازت حاصل ہے۔''
اس میٹنگ میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت، بری فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نرونے، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل کرم بیر سنگھ اور فضائیہ کے سربراہ آر کے ایس بھدوریہ شامل ہوئے۔ میٹنگ میں لداخ سمیت چین کے ساتھ متصل تقریباً ساڑھے تین ہزار کلو میٹر طویل تمام سرحدی علاقوں کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
گزشتہ ہفتے مشرقی لداخ میں گلوان وادی کے پاس بھارت اور چینی فوجیوں میں تصادم ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور 75 سے زائد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ اس واقعے کے بعد سے لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی مرحلے کی بات چیت ہوئی تاہم ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور دونوں جانب سے فوجیوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ کیا جا رہا ہے۔
سرینگر اور لیہ لداخ کی شاہراہ پر فوجی قافلوں کا سلسلہ جاری ہے جو بیشتر کشمیر سے لداخ کی طرف نکلتے ہیں۔ غیر معمولی طور پر فضا میں جنگی طیاروں کی گھن گرج بھی باربار سنائی دے رہی جو بیشتر کشمیر سے لداخ کے درمیان پرواز کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے فوجی قافلوں کے ساتھ بڑی تعداد میں ہتھیاروں کو بھی سرحد کی جانب منتقل کیا جا رہا ہے جس میں ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور توپوں سمیت مختلف طرح کا فوجی ساز و سامان شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق سرحد پر دونوں جانب سے فضائی نگرانی کا عمل بھی تیز ہوگیا ہے اور جنگی جہاز گشت کر رہے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر دفاع کی میٹنگ میں بھارتی فوجی سربراہان نے اپنی تیاریوں کے سے متعلق حکومت کو بریف کیا جبکہ حکومت نے اس صورتحال میں بحریہ اور فضائیہ کو بھی الرٹ رہنے کو کہا ہے۔
چین کے ساتھ جھڑپ میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی حکومت نے آل پارٹی میٹنگ طلب کی تھی جس میں کئی جماعتوں نے حکومت پر سرحد سے متعلق تمام معاملات کو صیغہ راز میں رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کئی اہم سوال پوچھے اور کہا کہ عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ آخر سرحد پر کیا ہورہا ہے اور فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری کس پر ہے۔
اس میٹنگ کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ''مشرقی لداخ میں جو کچھ بھی ہوا، اس میں نہ تو کوئی بھارتی سرحد میں داخل ہوا اور نہ ہی وہ اندر ہے، نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضے میں ہے۔'' ان کے اس بیان پر کئی حلقوں کی جانب سے کافی تنقید ہورہی ہے کہ آخر جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو سرحد پر کشیدگی کی وجہ کیا ہے آخر بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور 75 سے زائد بری طرح سے زخمی کیوں ہوئے ہیں؟
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
16 تصاویر1 | 16
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مودی کے اس بیان پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ انہیں اپنے الفاظ کے انتخاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کو انصاف دلوانے کا کام کرے۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے مودی کے اس بیان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ''مودی نے چین کے سامنے سر نگوں کر دیا ہے۔''
کئی دفاعی ماہرین یہ بات پہلے ہی کہہ اور لکھ چکے ہیں کہ چین نے پونگ گانگ سو جھیل میں بھارتی فوج کی گشت کا دائرہ پہلے سے بہت کم کردیا ہے اور وادی گلوان سمیت بھارت کے تقریبا 60 کلو میٹرمربع علاقوں تک اس کی فوجیوں کا کنٹرول حاصل ہے۔
سنیچر کو کل جماعتی میٹنگ کے بعد بھارت کے وزارت عظمی کے دفتر سے ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کو بتایا گیا ہے کہ، ''اس بار چینی فوجی بڑی تعداد میں ایل اے سی پر آگئے تھے اور بھارت کا جواب اسی کے مطابق ہے۔'' اطلاعات کے مطابق بھارتی فوجیوں کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور انہیں سرحد کے پاس چینی فوجیوں کے تعداد مطابق تعینات کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے فوج کو ہر صورت حال سے نمٹنے کو تیار رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔