بھارت: اپوزیشن رہنما کیجریوال کی ضمانت پر روک لگ گئی
21 جون 2024
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کافی دنوں سے جیل میں ہیں، جنہیں دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کے روز ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ تاہم حکومت کی ایجنسیوں نے جمعے کے روز اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اشتہار
جمعے کے روز دہلی ہائی کورٹ نے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی ضمانت پر رہائی کو یہ کہہ کر روک دیا کہ جب تک مرکز میں مودی حکومت کی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی درخواست پر سماعت نہیں ہو جاتی اس وقت وہ جیل میں ہی رہیں گے۔
گزشتہ روز دہلی کی ایک ذیلی عدالت نے شراب پالیسی سے متعلق بدعنوانی کے معاملے میں انہیں ضمانت پر رہا کرنے حکم دیا تھا۔ جسٹس نیائے بندو کی بنچ نے ای ڈی کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ تاہم مرکزی ایجنسی نے فوری طور پر اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور عدالت نے اس پر اپنا حکم بھی صادر کر دیا۔
ای ڈی کی نمائندگی کرتے ہوئے مودی حکومت کے وکیل ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے دلیل دی کہ ایجنسی کو اپنا کیس پیش کرنے کا مناسب موقع نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں ضمانت کی مخالفت کرنے کا مناسب موقع نہیں ملا ہے۔ ہمیں دلائل اور جواب دینے کا اختیار بھی نہیں دیا گیا ہے۔''
حزب اختلاف کی جماعت عام آدمی پارٹی پر سن 2021 میں حکومت کے زیر کنٹرول ایجنسی کی شراب کی فروخت کی پالیسی میں تقریبا ًایک کروڑ روپے کی رشوت لینے کا الزام لگایا تھا۔
کیجریوال کے حامیوں نے ان کی ابتدائی گرفتاری کی وجوہات پر سوال اٹھایا تھا اور اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ انہیں بھارت کے عام انتخابات کی مہم سے عین قبل گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تاہم نریندر مودی کی حکومت ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہے کہ ان کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بنا پر ہوئی تھی۔ بی جے پی کے زیر قیادت اتحاد نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تاہم توقع سے بہت کم اور پچھلے انتخابات کے مقابلے میں کم اکثریت کے ساتھ وہ اقتدار میں آئی۔
اس واقعے کی بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی۔ نئی دہلی نے اس حوالے سے جرمنی اور امریکہ کے بیانات پر جرمن اور امریکی سفارت کاروں کو طلب کرلیا تھا۔ بھارت میں حزب اختلاف کے کئی دوسرے سیاست دان بھی بدعنوانی کے الزامات میں پھنس چکے ہیں۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان گرفتاریوں کا مقصد مودی کے ممکنہ چیلنجرز کو کمزور کرنا ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
بھارت میں عام انتخابات
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں سات اپریل سے 12 مئی تک عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ اس موقع پر آٹھ سو ملین سے زائد ووٹروں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا بھی آسان کام نہیں ہو گا۔
تصویر: DW/A. Chatterjee
چوٹی کا امیدوار
حالیہ عوامی جائزوں کے مطابق وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نریندر مودی پسندیدہ ترین امیدوار ہیں جو ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ ماضی میں مغربی دنیا کے ان کے ساتھ تعلقات کوئی زیادہ اچھے نہیں رہے کیونکہ اُن پر گجرات میں مسلمانوں کے خلاف منظم قتل عام کی ذمہ داری کا الزام بھی عائد ہے۔ اب امریکا اوریورپی یونین اس ہندو سیاستدان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters
گریزاں لیڈر
ایک طویل عرصے تک کانگریس پارٹی کی صدر رہنے والی سونیا گاندھی نے اپنی پارٹی کی قیادت اپنے بیٹے راہول گاندھی کے حوالے کر رکھی ہے۔ راہول بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے پڑپوتے اور اندرا گاندھی کے پوتے ہیں۔ دس برس پہلے سیاست میں قدم رکھنے والے راہول کوئی بھی بڑا عہدہ لینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بدعنوانی کے خلاف لڑنے والا
عام آدمی پارٹی (AAP) کے سربراہ اروند کیجریوال نے کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں متاثر کن جیت کے بعد وہ نئی دہلی کی حکومت کے سربراہ بن گئے تھے تاہم انہوں نے 49 دنوں بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس رہنما نے بنارس میں ہندو قوم پرست نریندر مودی کو چیلنج کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کِنگ میکر
چار دائیں بازو اور سات علاقائی جماعتوں نے اتحاد کرتے ہوئے ایک ’تیسرے محاذ‘ کی بنیاد رکھی ہے تاکہ مضبوط کانگریس جماعت اور ہندو قوم پرست بی جے پی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) میں یہ تیسرا بڑا گروپ ہے اور کسی بھی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تصویر: Sajjad HussainAFP/Getty Images
سوشل میڈیا کا کردار
ان انتخابات سے پہلے کبھی بھی بھارتی الیکشن میں سوشل میڈیا کا کردار اتنا اہم نہیں رہا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر انتخابی مہم کو دلچسپ بنائے ہوئے ہے۔
کمپیوٹر کے ذریعے ووٹنگ
پانچ ہفتوں پر محیط ووٹنگ کے مراحل میں بھارتی ووٹر لوک سبھا کے 545 اراکین کا انتخاب کریں گے۔ بھارت میں 1998ء سے الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ انتخابی عمل کو تیز تر بنایا جا سکے۔ آئندہ انتخابات کے نتائج کا اعلان سولہ مئی کو کیا جائے گا۔
تصویر: AP
اقلیتوں کا اہم کردار
بھارت میں اکژیت ہندوؤں کی ہے لیکن یہاں آبادی کا تقریباً تیرہ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ووٹر پارلیمان کی پانچ فیصد سے زائد نشستوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی اپنے روایتی سیکولر پروگرام کے ساتھ مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے جبکہ مودی کی بھی کوشش ہے کہ وہ اپنے مسلم مخالف ہونے کے تاثر کو دور کریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’نامو‘ کی لہر
نریندر مودی کو ’نامو‘ کے نام سے بھی پکارا جا رہا ہے۔ یہ نام ہندو دیوتاؤں کی پوجا کے دوران بھی لیتے ہیں۔ مذہب کے علاوہ مودی نے ساری دنیا کے سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کا نعرہ پیش کیا ہے۔ نہ صرف مذہبی بلکہ تجارتی حلقے بھی مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔
تصویر: Sam Panthaky/AFP/Getty Images
عوام کی نمائندگی
عام طور پر بھارتی اراکین پارلیمان کو پانچ سالہ مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ پارلیمان کے ایوان بالا کو راجیہ سبھا اور ایوان زیریں کو لوک سبھا کہتے ہیں۔ ایوان زیریں میں جس جماعت یا اتحاد کو اکثریت حاصل ہو گی، آئندہ وزیراعظم بھی اسی کا ہوگا۔