بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد پر فوجیں کیوں بڑھا رہا ہے؟
17 نومبر 2025
عوامی زبان میں ''چِکنز نیک‘‘ کہلانے والا سِلی گوڑی کوریڈور 22 کلومیٹر چوڑی ایک تنگ پٹی ہے، جو مرکزی بھارت کو اس کے سات شمال مشرقی صوبوں سے جوڑتی ہے۔ نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش اور چین کے درمیان دبی ہوئی یہ پٹی بھارت کے انتہائی حساس جیو پولیٹیکل علاقوں میں سے ایک ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس ہفتے بھارتی فوج نے مشرقی سرحد کو مضبوط کرتے ہوئے بھارتی بنگلہ دیشی سرحد کے قریب سِلی گوڑی کوریڈور میں اہم اسٹریٹیجک مقامات پر تین مکمل طور پر فعال فوجی اڈے قائم کر دیے۔
سرحدی علاقوں سے مسلسل رپورٹنگ کرنے والے ڈی ڈبلیو کی بنگالی سروس کے صحافی شیامنتک گھوش نے بتایا کہ بھارتی حکام نئی فوجی پیش رفت پر خاموش ہیں، مگر بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت اور مضبوط تعیناتیوں کے ثبوت بالکل واضح ہیں۔
بنگلہ دیش کے قریب بھارتی فوجی موجودگی میں اضافہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب اگست 2024 میں بنگلہ دیش کی رہنما شیخ حسینہ کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد دونوں جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اپنے 15 سالہ دور حکومت میں حسینہ نے بھارتی بنگلہ دیشی تعلقات کو نسبتاً مستحکم رکھا تھا۔
بھارت کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ
نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) میں اسٹریٹیجک اسٹڈیز پروگرام کے سربراہ ہرش وی پنٹ کہتے ہیں کہ سِلی گوڑی کوریڈور بھارت کی ''اسٹریٹیجک کمزوری‘‘ ہے، جسے محفوظ رکھنا لازمی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ قدم ''بنگلہ دیش میں بڑھتے ہوئے اینٹی انڈیا جذبات اور اس بات کے اشاروں کے بعد اٹھایا گیا ہے کہ یونس حکومت نئی دہلی کے حق میں نہیں ہے۔‘‘ نوبل انعام یافتہ محمد یونس اس وقت بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔
نئے فوجی اڈوں کی رپورٹوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فضائیہ نے نو نومبر کو شمال مشرقی صوبے آسام میں اب تک کے سب سے بڑے ایئر شوز میں سے ایک منعقد کیا۔ اس کے بعد شمال مشرقی بھارت میں 20 نومبر تک جاری رہنے والی وسیع پیمانے کی سات روزہ فضائی مشقیں بھی شروع ہو گئیں۔
یہ سب کچھ پاکستانی بحریہ کے سربراہ کے ڈھاکہ کے دورے اور 1971ء کی جنگ آزادی کے بعد پہلی بار کسی پاکستانی جنگی جہاز کے بنگلہ دیشی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے ساتھ ہی ہوا۔
ہرش وی پنٹ کہتے ہیں کہ بھارت فوجی مشقوں کے ذریعے مسلسل یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ خطے میں درپیش چیلنجز سے پوری طرح آگاہ ہے۔ تاہم ان کے خیال میں حالیہ ایئر شو ''خاص طور پر کسی کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں‘‘ تھا۔
ریٹائرڈ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل اتپل بھٹاچاریہ نے بھی یہی رائے ظاہر کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کبھی یہ معمول کی مشقیں ہوتی ہیں، کبھی اسٹریٹیجک اشارہ۔ ارادے راتوں رات بدل سکتے ہیں۔ جب اعتماد ختم ہو جائے تو آج کا دوست کل دشمن بھی بن سکتا ہے۔‘‘
بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین تعلقات کا بدترین دور
پنٹ کے مطابق خطے میں بھارتی فوجی اقدامات ''دفاعی نوعیت‘‘ کے ہیں لیکن بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے ''اشتعال انگیز‘‘ بیانات کی وجہ سے کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
وہ مارچ میں محمد یونس کے اس بیان کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں انہوں نے بھارت کے شمال مشرقی صوبوں کو ''لینڈ لاکڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیش کو ''علاقے کے لیے سمندر کا واحد راستہ‘‘ کہا تھا۔
بنگلہ دیش: ترک ٹی وی سیریلز کی مقبولیت سے بھارتی ٹی وی ڈراموں کی اجارہ داری ختم
ڈھاکہ کا موقف ہے کہ یونس کا بیان علاقائی رابطوں کی صلاحیت اجاگر کرنے کے لیے تھا لیکن علاقے کی جیو پولیٹیکل حساسیت کی وجہ سے نئی دہلی کو یہ بات ناگوار گزری۔
دونوں حکومتیں حالیہ فوجی پیش رفت پر خاموش ہیں اور کسی نے بھی ڈی ڈبلیو کی طرف سے ردعمل کی درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔
بنگلہ دیش میں اگلے سال فروری میں عام انتخابات متوقع ہیں۔ بھارت مبینہ طور پر ''ویٹ اینڈ واچ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشارہ دے رہا ہے کہ وہ صرف منتخب حکومت کے ساتھ ہی مکمل تعلقات بحال کرے گا۔
ہرش وی پنٹ کہتے ہیں، ''انتخابات کے بعد جب مینڈیٹ والی حکومت آ جائے گی، تب تعلقات کے معمول پر آنے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔‘‘
کشیدگی کا پس منظر
اگست 2024 میں شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ کئی برسوں کی اپنی بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ حسینہ کے 15 سالہ دور میں اینٹی انڈیا عسکری نیٹ ورکس ختم کیے گئے، دہشت گردی پر قابو پایا گیا اور رابطوں کے منصوبے آگے بڑھے۔ بھارت کو خلیج بنگال تک رسائی دی گئی اور 4,000 کلومیٹر طویل سرحد کی سلامتی مضبوط کی گئی۔
تاہم تب بھی اندرونی سطح پر عدم اعتماد موجود رہا۔ بھارت کا 2019ء کا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) ، جو افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے غیر مسلم اقلیتوں کو تیز رفتاری سے بھارتی شہریت دیتا ہے، بنگلہ دیش کی مسلم اکثریتی آبادی کو ناگوار گزرا۔ بھارت میں بنگالی بولنے والے تارکین وطن کو ''بنگلہ دیشی درانداز‘‘ کہا جانا بھی دشمنی بڑھاتا رہا۔
شیخ حسینہ کی حکومت کے بعد یہ اینٹی انڈیا جذبات کھل کر سامنے آ گئے، جنہیں سابق وزیر اعظم کا بھارت میں سیاسی پناہ لینا مزید ہوا دے رہا ہے۔
ڈھاکہ کی طرف سے بار بار حوالگی کی درخواستوں کے باوجود نئی دہلی شیخ حسینہ کو واپس بھیجنے پر خاموش ہے۔ بنگلہ دیش حسینہ کی بھارتی اور عالمی میڈیا تک رسائی کو مزید اشتعال انگیز سمجھتا ہے۔
12 نومبر کو ڈھاکہ نے بھارتی سفیر کو طلب کر کے شیخ حسینہ کی میڈیا سرگرمیوں پر تشویش ظاہر کی۔ حسینہ پر گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے الزام میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے چل رہے تھے اور آج بروز پیر انہیں سزائے موت بھی سنا دی گئی۔
سابق بنگلہ دیشی سفارت کار ایم ہمایوں کبیر کہتے ہیں، ''پندرہ سال تک بھارت کو لگتا رہا کہ وہ ڈھاکہ کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ وہ دور اب ختم ہو چکا مگر بنگلہ دیش پر غلبے کی بھارتی خواہش مزید تیز ہو گئی ہے۔‘‘
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین ایک 'نیا رشتہ‘
بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین کشیدگی کے ساتھ ہی پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ''نیا پیار‘‘ بھی نظر آ رہا ہے۔
1971ء میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی کی خونریز جنگ لڑی تھی اور تب بھارت اس کی بڑی سفارتی اور فوجی حمایت کر رہا تھا۔ مگر موجودہ عبوری حکومت کے اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان نے ڈھاکہ سے رابطے تیزی سے بڑھائے ہیں۔
اسلام آباد نے وزیر خارجہ اور انٹیلی جنس سربراہ سمیت اعلیٰ وفود بھیجے، تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے اور بحری دوروں و دفاعی مذاکرات کے ذریعے فوجی تعاون بحال کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش بھارت کے اثر کو توازن دینا چاہتا ہے جبکہ نئی دہلی اس نزدیکی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ریٹائرڈ بنگلہ دیشی جنرل فضل الٰہی اکبر کہتے ہیں، ''بنگلہ دیش 1971ء کے واقعات میں بھارت کے کردار کو ہمیشہ تسلیم کرے گا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب اس کے اپنے مفادات داؤ پر ہوں، تو بھی وہ بھارت کے آگے سر جھکاتا رہے۔‘‘
سابق سفارت کار ہمایوں کبیر کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش بھارت سے تعلقات کی اہمیت سمجھتا ہے مگر ''باہمی احترام، برابری اور عزت نفس‘‘ چاہتا ہے، جو ان کے خیال میں بھارت کی طرف سے غائب ہیں۔
ایک نئی پیش رفت یہ ہے کہ 19 نومبر کو بنگلہ دیش کے سلامتی کے عبوری مشیر خلیل الرحمٰن نئی دہلی میں کولمبو سکیورٹی کانکلیو میں شرکت کریں گے، جس کی میزبانی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کر رہے ہیں۔ موجودہ کشیدگی کے باوجود اس دورے کو انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
ادارت: مقبول ملک