بھارت: بیل نہیں، صرف گائے پیدا کرنے کا سرکاری منصوبہ
16 جولائی 2021حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرمانے ریاستی اسمبلی میں جمعرات کے روز تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آسام میں دودھ دینے والی گائیوں کی آبادی میں اضافہ کرنے کے لیے فطری طریقہ حمل کے بجائے مصنوعی طریقہ حمل استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ فطری طریقہ حمل سے یہ یقینی بنانا مشکل ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچھڑا گائے ہو گا یا بیل۔ لہذا سائنسی طریقے سے الگ کر کے صرف ایسے مادہ منویہ کا استعمال کیا جائے گا، جس سے حاملہ ہونے کے بعد گائے، کوئی بیل پیدا نہ کر سکے بلکہ صرف گائے ہی پیدا ہو۔
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے اگلے چند برسوں کے دوران اچھی نسل کی صرف گائیں ہی پیدا ہوں گی اور بیل پیدا نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صنف کی بنیاد پر مادہ منویہ کو الگ کر کے یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچھڑا گائے ہو گا یا بیل اور اس طرح صرف گائے پیدا کرنا ممکن ہے۔
ریاستی وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ محکمہ مویشی پروری نے انہیں بتایا ہے کہ وہ مصنوعی طریقہ حمل سے صرف گائے پیدا کر سکتے ہیں،”اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگلے دس بیس برس میں ریاست میں صرف گائیں ہی رہیں گی، کوئی بیل نہیں رہے گا۔"
ہیمنت بسوا سرما نے دعوی کیا کہ بیلوں کو مذبحہ خانوں میں پہنچا دینے کا رجحان لوگوں میں عام ہے۔
ہندو روایات کے مطابق صرف گائے ہی سب سے اہم جانور
سرمانے کہا،”جب ہم ہندو روایات اور قدیم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں صرف کامدھینو یعنی گائے جیسے جانوروں اور ان کے دودھ سے ہونے والے فوائد کا ہی ذکر ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیلوں کے مقابلے میں گائیوں کی زیادہ تعداد کو یقینی بنانا ضروری ہے۔"
ہندو اساطیر کے مطابق کامدھینو ایک ایسی متبرک گائے ہے، جو اپنے مالک کی تمام خواہشات کو پورا کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ شرما نے گائیوں کے ذبیحہ، ان کا گوشت کھانے اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے سلسلے میں قانون سازی کے لیے گزشتہ ہفتے ہی ریاستی اسمبلی میں خود ایک بل پیش کیا تھا۔ اس بل پر کافی نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔
متنازعہ قانون
مویشیوں کے تحفظ سے متعلق اس بل میں ہندو، جین، سکھ اور گوشت نہ کھانے والی دوسری برادریوں کی بستیوں میں گائے کے گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس بل کے مطابق جس علاقے میں بھی مندر ہو، اس کے آس پاس پانچ کلومیٹر کے دائرے میں گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ اس پیش رفت پر کئی حلقوں کی جانب سے یہ کہہ کر شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے کہ اس کا مقصد محض ریاست کے مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔
واضح رہے کہ ریاست آسام بنگلہ دیش کی پڑوسی ریاست ہے اور ہندو قوم پرست جماعتیں اکثر یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ گوشت کی کھپت کے لیے بڑی تعداد میں آسام سے گائے اور دیگر مویشی بنگلہ دیش بھیجے جاتے ہیں۔
بھارت میں گائے کو ایک 'اہم سیاسی ہتھیار‘ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ حکمراں بی جے پی اور ہندو قوم پرست تنظیموں سے وابستہ افراد گائے کے نام پر اکثر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔