بھارت: بے روزگارمزدوروں کے سامنے زر کے بعد اب زمین کا مسئلہ
5 جون 2020
بھارت میں لاک ڈاون کی وجہ سے بے روزگار ہوکر شہروں سے گاوں لوٹنے والے ہزاروں مزدور اب خاندانی زمین اور جائیدا د کے جھگڑے سے دوچار ہو گئے ہیں۔
اشتہار
تازہ اعدادوشمار کے مطابق صرف ریاست اترپردیش میں ہی پچھلے تین ماہ کے دوران جائیداد کے تنازعات کے حوالے سے ایک لاکھ 67 ہزار سے زائد شکایتیں درج ہوچکی ہیں۔
لاک ڈاون کی وجہ سے روزگار سے محروم ہوجانے والے لاکھوں مزدور شہر چھوڑ کر اس امید پر اپنے اپنے آبائی گاوں کی طرف لوٹ رہے ہیں کہ وہاں کم از کم دو وقت روکھی سوکھی روٹی اور سرچھپانے کے لیے جگہ تو مل ہی جائے گی۔ لیکن گاوں پہنچنے کے بعد ان لوگوں کے ساتھ اب ایک نئی پریشانی پیدا ہوگئی ہے۔ دراصل مزدوروں کے گھر واپس لوٹنے کے بعد کھیتی کی زمین کے لیے تنازعہ پیدا ہوگیا ہے اور آبائی جائیداد کا جھگڑا دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔
بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش سے تعلق رکھنے والے لاکھو ں مزدور لاک ڈاون نافذ ہونے اور اس میں مسلسل توسیع ہونے کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے اپنے اپنے گاوں لوٹ آئے ہیں۔ ان کی واپسی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ہزاروں لوگوں نے گاوں واپس لوٹنے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں ملنے کی وجہ سے پیدل ہی سفر کرنے کا فیصلہ کیا تھا توبعض سائیکل کے ذریعہ سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے اپنے اپنے گاوں پہنچ گئے۔
حکومت نے مئی مہینے میں مزدوروں کے لیے بس اور ٹرین سروس چلانے کا فیصلہ کیا جس کی مدد سے بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ ملک کے مختلف حصوں سے اپنے گاوں اور قصبے میں پہنچ گئے۔ شہروں میں رہنے والے ان مزدوروں کے پاس نہ تو کھانے کے لیے پیسے بچے تھے اور نہ ہی وہ مکان کا کرایہ ادا کرنے کی حالت میں تھے۔لیکن شہروں سے گاوں کی طرف دوبارہ واپسی نے گاوں میں موجود محدود وسائل کے لیے مسائل پیدا کردیے ہیں۔
بلیا کے رستر کلاں پنچایت کی سربراہ (پردھان) اسمرتی سنگھ کہتی ہیں کہ وہ گاوں لوٹنے والے تقریباً ایک ہزار لوگوں کو قرنطینہ کرنے اور خاندانی جھگڑے نمٹانے کے درمیان پھنس گئی ہیں۔ اسمرتی سنگھ کا کہنا تھا”جائیداد کے سلسلے میں ہر روز جھگڑا ہورہا ہے۔ یہ تمام معاملات تقریباً ایک ہی طرح کے ہیں۔“ وہ بتاتی ہیں کہ بیشتر گھر واپس آنے والے خاندان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ خاندانی گھر اور جائیداد کے سلسلے میں جھگڑے کررہے ہیں۔
خبر رسا ں ایجنسی روئٹرز کو اترپردیش کے دو پولیس افسران نے بتایا کہ مئی کے مہینے میں یکم سے بیس تاریخ کے درمیان پولیس نے 80ہزار سے زیادہ جائیداد سے متعلق تنازعات کی شکایتیں درج کی ہیں۔ اپریل میں 38ہزار شکایتیں درج کی گئی تھیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ریاست میں جنوری سے لے کر ماچ کے درمیان گھر کے مالکانہ حق، کمرشیل جائیدادوں اور کھیتی کی زمین کے سلسلے میں 49ہزار شکایتیں درج کی گئی تھیں۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملات میں کچھ کہنے کے مجاز نہیں ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں ایسے جھگڑوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگا کیوں کہ ملک بھر سے مزدوروں کا اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹنا جاری ہے۔
ج ا / ص ز(روئٹرز)
چند سکوں کے عوض بکتی معصومیت
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے کان کنی، کارخانوں اور زرعی صنعت میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Michael Westermann
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
تصویر: imago/Eastnews
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/Michael Westermann
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔