بھارت: تریپورا میں بی جے پی کی جیت، لینن کا مجسمہ منہدم
جاوید اختر، نئی دہلی
6 مارچ 2018
بھارت کے شمال مشرق میں بائیں بازو کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے تریپورا کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد تشدد پھوٹ پڑے ہیں۔
اشتہار
بھارت کے شمال مشرق میں بائیں بازو کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے تریپورا کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد تشدد پھوٹ پڑے ہیں۔ بی جے پی کی جیت کے بعد انقلاب روس کے ہیرو ولادیمیر لینن کے مجسمہ پر بلڈوزر چلا کر منہدم کردیا گیا ہے۔
تریپورا میں تین دن پہلے ہی اسمبلی انتخابات کے نتائج آئے ہیں۔ جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پچھلے پچیس سال سے حکومت کرنے والی بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسی (سی پی ایم) کوبری طرح شکست دی ہے۔
انتخابی نتائج آنے کے بعد سے ہی صوبے کے تقریباً تیرہ اضلاع میں تشدد، لوٹ مار اور آتش زنی کے واقعات جاری ہیں۔سی پی ایم کے دفاتر اور کارکنوں کے گھروں کو بھی نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ جب کہ جنوبی تریپورا کے بیلونیا نامی قصبے میں ایک چوراہے پر نصب انقلاب روس کے ہیرو ولادیمیر لینن کے مجسمے کو بھی منہدم کردیا گیا ہے۔
کچھ بھارتی مصنوعات، جو پاکستان درآمد نہیں کی جا سکتیں
پاکستانی وزارت تجارت نے ایک ہزار سے زائد بھارتی مصنوعات کو درآمد کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ان میں سے چند دلچسپ اشیا کیا ہیں، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Daimler AG
ٹوتھ پیسٹ
تصویر: Fotolia/djama
ڈائیپرز
تصویر: Getty Images/Tim Boyle
نوٹ بُک، ڈائری، فائل فولڈر
تصویر: DW/M Shawyder
پنسل
تصویر: HECTOR RETAMAL/AFP/Getty Images
قلم، قلم کی نیب، اور سیاہی بھی
تصویر: picture-alliance/OKAPIA/Dr. M. Baumgärtner
شارپنر
تصویر: Fotolia/picsfive
سرجری کے آلات
تصویر: Getty Images/AFP/M. Rasfan
آنکھوں کے لیے قطرے
تصویر: Colourbox
کھانے کے برتن
تصویر: DW/S. Waheed
فروٹ مکسر
تصویر: Vanillaechoes/colourbox
کافی یا چائے بنانے کے برتن
تصویر: R. Gellatly/Z. Marks
ٹریکٹر
تصویر: AFP/Getty Images
ڈبے اور مختلف پیکنگ میٹیریل
تصویر: Imago/Arnulf Hettrich
سوٹ کیس
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/Jagadeesh NV
مختلف اقسام کے کاغذ
تصویر: bahrialtay - Fotolia.com
ٹوائلٹ پیپر
تصویر: picture-alliance/dpa
تولیہ اور رومال
تصویر: colourbox.de
جوتے
تصویر: NOAH SEELAM/AFP/Getty Images
ٹائلیں
تصویر: Colourbox
ایل ای ڈی بلب
تصویر: Reuters
کھیلوں کا سامان
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
استرا اور بلیڈ
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مختلف اقسام کی چرخیاں
تصویر: UNI
کاریں اور گاڑیاں
تصویر: Daimler AG
گاڑیوں کے پرزے
تصویر: Reuters
سائیکل اور ان کے پرزے
تصویر: DW
300 لیٹر سے بڑی پانی کی ٹینکیاں
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Jallanzo
پلاسٹک کی چوڑیاں
تصویر: DW/S.Bandopadhyay
عطریات اور خوشبوئیں
تصویر: DW/L. Tarek
چمڑے کی اشیا
تصویر: DW/Vishwaratna Srivastava
باتھ روم شاور، واش بیسن اور سنک
تصویر: Dounia Cherfaoui
31 تصاویر1 | 31
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں لینن کے مجسمہ کو منہدم کرتے وقت لوگوں کو ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر تمام متاثرہ علاقوں میں حکم امتناعی نافذ کردیا گیا ہے، جس کے تحت کسی مقام پر پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے صوبے کے گورنر تتھاگت رائے اور ڈائریکٹر جنرل پولیس کو صورت حال قابو میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ادھر سی پی ایم کی قیادت میں بائیں بازو کے ایک وفد نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک میمورنڈم دیا جس میں صوبے میں امن بحال کرنے اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں سی پی ایم کے ڈپٹی لیڈر ڈاکٹر سلیم نے اس میمورنڈم کی نقول صحافیوں کو تقسیم کرتے ہوئے کہا، ’’تریپورا میں الیکشن کے نتائج آنے کے بعد بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے لوگوں نے دہشت کا ماحول بنادیا ہے اور ترقی کے نام پر ابھی سے تباہی شروع کردی ہے۔ پارٹی کے کارکنوں، پارٹی دفاتر اور عوامی تنظیموں کے دفاتر پر حملے شرو ع کر دیے ہیں، جس سے صوبہ بدامنی کا شکارہوگیا ہے، حالانکہ تریپورا ہمیشہ سے پرامن صوبہ رہا ہے۔‘‘
سی پی ایم کے رہنما کا مزید کہنا تھا، ’’کل پانچ مارچ کی شام چار بجے تک ڈیڑھ ہزار سے زائد مکانات پر حملے ہوئے، 514 افراد کو نشانہ بنایا گیا، قریب دو سو مکانات اور پارٹی کے 134دفاتر کوآگ لگا دی گئی جب کہ بی جے پی کے کارکنوں نے سی پی ایم کے 208 دفاترپر قبضہ کرلیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ تریپورا میں لینن کے مجسمے کومنہدم کرنے کا واقعہ انہیں افغانستان کے بامیان واقعہ کی یاد دلاتا ہے جہاں گوتم بدھ کے مجسمے کو منہدم کردیا گیا تھا۔
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
11 تصاویر1 | 11
دوسری طرف بی جے پی نے ان پر تشدد واقعات کو کمیونسٹوں کے خلا ف عوام کی ناراضگی اور غصے کا اظہار قرار دیا۔ بی جے پی رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے ٹوئیٹ کرکے کہا، ’’لینن تو ایک غیر ملکی ہے، ایک طرح سے دہشت گردہے، ایسے شخص کا مجسمہ ہمارے ملک میں کیوں؟ وہ مجسمہ اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے اندر رکھیں اور اس کی پوجا کریں۔‘‘ بی جے پی کے ایک دیگر سینئر رہنما نلن کوہلی کا کہنا تھا، ’’ہم تشدد کی کبھی حمایت نہیں کرتے لیکن تریپورا میں بائیں بازو کی جماعتیں اس وقت کیوں خاموش تھیں جب بی جے پی کے گیارہ کارکنوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی شمال مشرق میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھری ہے، اس سے نہ صرف شمال مشرق بلکہ قومی سیاست پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ بی جے پی نے نہ صرف تریپورا میں کمیونسٹ جماعت کا پچیس سالہ اقتدار ختم کردیا ہے بلکہ ناگالینڈ میں بھی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ریاست میگھالیہ میں بھی کانگریس سب سے بڑی پارٹی کے طورپر ابھرنے کے باوجود اقتدار سے دور ہوگئی ہے اور صرف دو ارکان والی بی جے پی نے اکیس سیٹوں والی کانگریس کو اقتدار سے باہر کردیا ہے۔
تجزیہ کار سب سے زیادہ اس بات سے حیران ہیں کہ پچھلی مرتبہ تریپورا میں صرف ڈیڑھ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کو تینتالیس فیصد ووٹ کیسے مل گئے اور ایک غریب اور ایماندار وزیر اعلٰی کے امیج والے مانک سرکار کو شکست سے کیوں کر دوچار ہونا پڑا؟
سیاسی تجزیہ نگار بھوپندر سنگھ کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’دراصل تریپورا کے عوام متبادل کی تلاش میں تھے لیکن انہیں متبادل کی تلاش کیوں تھی اور انہوں نے متبادل کے طورپر بی جے پی کو ہی کیوں منتخب کیا، اس پردیگر جماعتوں کو غور کرنا چاہیے۔ تریپورا میں بی جے پی کی فتح اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی شکست ایک بڑا سیاسی واقعہ ہے اور اس کا اثر قومی سیاست پر پڑنا یقینی ہے۔‘‘
شمال مشرق صوبوں میں بی جے پی کے عروج کے حوالے سے سینئر صحافی اور اردو اخبار روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر محمد وسیم الحق کا کہنا تھا، ’’شمال مشرق کی ریاستوں کی غالب آبادی مسیحی ہے، اس لیے اسمبلی انتخابات سے پہلے ہی بی جے پی نے اپنا قبلہ درست کرلیا تھا ۔ اپنی پوری انتخابی مہم میں بی جے پی نے بھولے سے بھی ہندوتوا، گاؤ رکشا، یا بیف کا نام نہیں لیا اور بیف خوری کو مقامی کلچر کہہ کر اس سے صرف نظر کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’شمال اور شمال مشرق پر قبضے کے بعد اب بی جے پی کا ہدف جنوبی بھارت ہوگااور اسی لیے کرناٹک میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس نے اپنا پورا زور لگادیا ہے۔‘‘