1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں صنفی مساوات: تمام طلبہ کے لیے یکساں یونیفارم

جاوید اختر، نئی دہلی
22 نومبر 2021

بھارتی ریاست کیرالا کے ایک اسکول نے تمام طلبہ اور طالبات کے لیے یکساں یونیفارم کوڈ نافذ کیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کے مطابق یہ صنفی مساوات کی جانب ایک اور قدم ہے اور یوں صنفی غیر جانبداری کی قدروں کو فروغ ملے گا۔

Coronavirus Indien Kolkatta Kinder leiden unter Schulschließungen
تصویر: DW/Prabhakar

جنوبی بھارتی ریاست کیرالا کے ارناکولم ضلع میں واقع ولاین چیرانگرا گورنمنٹ اسکول نے تمام طلبہ و طالبات کے لیے یکساں یونیفارم کوڈ نافذ کیا ہے۔ اس کے تحت اسکول میں زیر تعلیم تمام لڑکے اور لڑکیاں اب تین چوتھائی لمبائی والی پینٹس (شارٹس)اور شرٹ پہن کر اسکول آتے ہیں۔

اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے سماج کے سب سے اہم طبقے یعنی بچوں میں صنفی غیر جانبداری کے رویے کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

بھارت کے کسی بھی اسکول میں تمام طلبہ اور طالبات کے لیے یکساں یونیفارم کا یہ فیصلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد اور پہلا فیصلہ ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ بھارت میں ایک طبقہ ہر چیز کو مذہب کی عینک سے دیکھتا ہے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اس کے 'مذہبی جذبا ت مجروح‘ ہو جاتے ہیں۔

کیا الگ الگ اسکولو ں کی ضرورت ہے؟

کیرالا میں بایاں محاذ حکومت کے وزیر تعلیم وی سیوان کٹّی نے اسکول کے اس فیصلے کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس طرح کی صنفی شمولیت کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مدد کرے گی۔

سیوان کٹّی نے ایک ٹویٹ میں کہا، ''نصابی کتابوں میں صنفی انصاف، مساوات اور بیداری کے آئیڈیاز پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن ان چیزوں کو صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اب طلبہ اور طالبات دونوں ایک ہی طرح کے یونیفارم یعنی شارٹ پینٹس اور شرٹس پہنیں گے۔

ریاستی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ سماج میں یہ بحث بھی شروع ہونا چاہیے کہ کیا اب بھی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسکولوں کی ضرورت برقرار ہے۔ انہوں نے کہا، ''ان کی حکومت تمام اسٹوڈنٹس کے لیے یونی سیکس یونیفارم کے آئیڈیا کی مکمل حمایت کرتی ہے کیونکہ یہ صنفی مساوات کو یقینی بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اسکولوں کے نصاب میں صنفی مساوات اور انصاف کو شامل کرنے کے سلسلے میں خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔

تصویر: Thomson Reuters Foundation/R. Srivastava

فیصلہ دو برس پہلے ہوا تھا

مذکورہ اسکول میں 754 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ نیا ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا فیصلہ 2018ء میں کیا گیا تھا اور اسکول کے پرائمری سیکشن میں اسے نافذ بھی کر دیا گیا تھا۔ تاہم اب جب کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاون کے بعد اسکول دوبارہ کھلا تو اسے تمام کلاسوں کے اسٹوڈنٹس کے لیے نافذ کر دیا گیا۔

اسکول کی پرنسپل کے پی سوما کا کہنا تھا کہ طلبہ اس نئے یونیفارم میں کافی خوش ہیں اور لڑکیاں اس یونیفارم کو زیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہیں اور زیادہ اعتماد کے ساتھ کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'پیرینٹس ٹیچر ایسوسی ایشن (پی ٹی اے)‘ میں اس بارے میں مشورہ ہوا اور نئے یونیفارم کے لیے ایک فیشن ڈیزائنر کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔

نیا یونیفارم تیار کرنے والی ڈیزائنر ودیا مکندن کا کہنا تھا کہ ابتدا میں طلبہ کے سرپرستوں کو تھوڑی جھجھک تھی، بالخصوص ان کا کہنا تھا کہ اس ڈریس میں لڑکیاں کس طرح ٹائلٹ استعمال کریں گی۔

تصویر: Imago/Hindustan Times

طالبات اور ان کے سرپرست بھی خوش

پی ٹی اے کے صدر وویک نے بتایا کہ وہ چاہتے تھے کہ تمام طلبہ ایک ہی طرح کے یونیفارم پہنیں تاکہ وہ آزادی سے کھیل کود سکیں۔ پرائمری کلاسوں میں جب اسے نافذ کیا گیا تو اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے، جس کے بعد متفقہ طور پر اسے دیگر کلاسز کے لیے نافذ کرنے کی منظوری دے دی گئی۔

اسکول کی ایک طالبہ کا کہنا تھا، ''ہمارے والدین ہمیں اسپورٹس اور ڈانس وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے وقت زیادہ محتاط رہنے کا مشورہ دیتے تھے کیونکہ اسکرٹ ایسی سرگرمیوں کے لیے زیادہ مناسب نہیں ہے۔  میں اب بہت خوش ہوں اور اسپورٹس اور کسی بھی غیر نصابی سرگرمی میں آزادی سے حصہ لے سکتی ہوں۔‘‘

کیرالا بھارت کی سب سے خواندہ ریاست ہے۔ سن 2011 کی مردم شمار ی کے مطابق جنوبی ریاست کیرالا میں خواندگی کی شرح 96.2 فیصد ہے جبکہ بھارت میں قومی خواندگی کی شرح 65.83 فیصد ہے۔

کیرالا حکومت نے اس ماہ کے اوائل میں ایک اور اہم فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسکولوں میں خواتین ٹیچروں کے لیے ساڑھی پہن کر آنا ضروری نہیں۔ ریاستی حکومت کا کہنا تھا کہ لباس ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور ساڑھی پہننے پر اصرار کرنا کیرالا کے ترقی پسندانہ رویے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں