کشمیر: فوجی سرکلر میں نقاب کے بجائے حجاب ایک غلطی ہے
28 اپریل 2022بھارت میں حجاب پر پابندی اور اس پر تنازعہ کوئی نئی بات نہیں، تاہم اب یہ تنازعہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر تک پہنچ گیا ہے، جہاں تقریبا 95 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ بھارتی فوج نے اپنے ماتحت چلنے والے خصوصی اسکولوں میں استانیوں سے کہا ہے کہ اسکول کے اندر وہ حجاب پہننے سے گریز کریں۔
کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے فوج کے اس حکم کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو کشمیری لڑکیوں کو اس کی مکمل آزادی ہے کہ وہ کیا اختیار کریں اور انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
فوج کا فرمان اور اس کی وضاحت
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں بھارتی فوج کے زیر انتظام چلنے والے معذور بچوں کے ایک اسکول کی جانب سے ایک حالیہ سرکلر میں حکم دیا گیا ہے کہ ٹیچرز کو "اسکول کے اوقات میں حجاب سے گریز کرنا چاہیے۔"
اسکول کے پرنسپل کے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ پریوار اسکول ’’جذباتی لگاؤ اور اخلاقی طور پر سیکھنے اور بڑھنے کی جگہ ہے۔ اسکول کے عملے کا بنیادی مقصد ہر سیکھنے والے کو ممکنہ حد تک ترقی فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے طلبہ کے ساتھ نہ صرف اعتماد قائم کرنا ضروری ہے بلکہ انہیں خوش آئند، محفوظ اور خوشی کا احساس دلانا بھی ضروری ہے۔"
اس نوٹس میں مزید کہا گیا، "اسی لیے اسکول کے عملے کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اسکول کے اوقات میں حجاب سے گریز کیا کریں تاکہ طلبہ اطمینان محسوس کر سکیں اور اساتذہ اور عملے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے خوشی سے آگے آئیں۔"
بھارتی فوج کے اس سرکلر پر کشمیری رہنماؤں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا، تو فوج نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکلر میں غلطی سے نقاب کے بجائے حجاب کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ اس سے مراد حجاب (سرڈھکنے کا عمل) نہیں بلکہ نقاب ہے۔
دفاعی ترجمان عمران موسوی نے بھارتی میڈیا سے بات چیت کہا، ’’مجھے یہ واضح کرنے دیں کہ یہ حجاب نہیں بلکہ نقاب ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسکول خصوصی طور پر معذور بچوں کے لیے ہیں، جو قوت سماعت بھی محروم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے بچوں کو، "چہرے کے تاثرات و اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے صوتیات سکھانی پڑتی ہیں۔ اگر کوئی ٹیچر نقاب پہنتی ہے تو وہ کیسے پڑھائے گی، بچے کیا دیکھ پائیں گے؟ اس لیے یہ حکم صادر کیا گیا ہے۔ سرکلر صرف اساتذہ کے لیے ہے۔"
سیاسی رہنماؤں کا رد عمل
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹر پر اس کے رد عمل میں لکھا: "میں حجاب پر حکم جاری کرنے والے اس خط کی مذمت کرتی ہوں۔ جموں و کشمیر میں بھلے ہی بی جے پی کی حکومت ہو لیکن یقینی طور پر یہ کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں ہے جہاں وہ اقلیتوں کے گھروں کو بلڈوز کر دیتے ہیں۔ کشمیری لڑکیوں کو لباس پہننے کی آزادی ہے۔ ہماری لڑکیاں اپنے انتخاب کے حق سے دستبردار نہیں ہوں گی۔"
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا،’’جموں و کشمیر نے اس بھارت سے الحاق کیا تھا جس میں ہر مذہب کو برابری کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ (سرکلر) غلط ہے۔ اس ملک میں ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے۔ ہمارے ملک کے آئین میں درج ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک ہیں اور سیکولر ملک کا مطلب یہی ہے کہ ہر مذہب مساوی درجہ حاصل ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، ’’بھارت میں شمولیت اختیار کرتے وقت ہمیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ایک مذہب کو دوسرے پر زیادہ اہمیت دی جائے گی اور دوسرے کو دبا دیا جائے گا۔ اگر یہ ہمیں بتا دیا جاتا تو شاید ہمارا فیصلہ کچھ اور ہوتا۔"
عمر عبداللہ کے بقول ہر ایک کو یہ فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی ہے کہ وہ کیا پہنا پسند کرتا ہے، ’’میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی حکومت کو اس میں مداخلت کا حق ہے۔‘‘
عمر عبداللہ نے لاؤڈ سپیکر اور حلال گوشت کے تنازعات پر بھی بات کی اور کہا کہ آخر صرف مسلمانوں کی شناخت پر ہی اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔ "یہ صرف حجاب کے بارے میں نہیں ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کی اجازت نہیں ہو گی۔"
انہوں نے کہا، "تم ہمیں کہتے ہو کہ حلال نہ کھاؤ۔ کیوں؟ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ ہمیں صرف حلال گوشت کھانا چاہیے۔ آپ ہمیں کیوں روک رہے ہیں؟ ہم تو آپ کو حلال کھانے پر مجبور نہیں کرتے۔ تم جس طرح چاہو کھاؤ، ہمیں بھی اپنی مرضی سے کھانے دو۔"