بھارت: ’جسم فروشوں کا گاؤں‘ ڈیجیٹل مہارت کی جانب گامزن
مرلی کرشنن، نئی دہلی
10 اکتوبر 2020
جسم فروشی مندسور ضلع کے ہزاروں خاندانوں کا موروثی پیشہ خیال کیا جاتا ہے۔ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے اس علاقے میں اب یہ رجحان تبدیل ہو رہا ہے اور نوجوان لڑکیاں ڈیجیٹل دور کے نئے ہنر سیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اشتہار
نوالی گاؤں میں جسم فروشی ایک موروثی پیشہ ہے جو عورتوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ہے۔ شاہی درباریوں کی اولاد خیال کیے جانے والے بنچاڈا قبیلے کی برادریاں اس خطے کے بیس دیہات میں مقیم ہیں۔ اس قبیلے کے بیس ہزار سے زائد افراد میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔
نوالی بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے تقریباﹰ 370 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نیشنل ہائے وے کے ذریعے نوالی تک پہنچنے میں لگ بھگ آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔ اس خطے میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم کی سہولیات بھی انتہائی ناقص ہیں۔ یہاں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر مرد زراعت کے شعبے میں عارضی معاہدوں پر مزدوری کرتے ہیں۔
بھارت: خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے 2019 میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مدت میں فی ایک لاکھ پر جرائم کی شرح 58.8 فیصد سے بڑھ کر 62.4 فیصد ہوگئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury
روزانہ 88 ریپ
بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز، اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ تاہم بیشتر واقعات میں پولیس پر کیس درج نہیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
تصویر: imago images/Pacific Press Agency
دلتوں کا اوسط گیارہ فیصد
بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ طبقات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اپنے ہی دشمن
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 30.9 فیصد معاملات میں ملزم قریبی رشتے دار تھے۔ سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/
کینڈل لائٹ مظاہرے
جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ اگر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس واقعہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اگلے واقعہ تک سب کچھ ’شانت‘ ہوجاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra
نربھیا کیس
دسمبر 2012 کے دہلی اجتماعی جنسی زیادتی کیس کے بعد پورے بھارت میں مظاہرے ہوئے۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس واقعہ کے بعد حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تاہم مجرموں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بیٹی بچاو
وزیر اعظم نریندرمودی نے 2015 ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ اسکیم شروع کی جس کا مقصد صنفی تناسب کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان کے مخالفین طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ’’مودی جی نے تو پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ’بیٹی بچاو‘۔ اب یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی کو خود بچائے۔“
تصویر: Reuters/Sivaram V
قانونی جوڑ توڑ
جنسی زیادتی کے ملزمین کو سزائیں دینے کی شرح میں 2007 کے بعد سے زبردست گراوٹ آئی ہے۔ 2006 میں سزاوں کی شرح 27 فیصد تھی لیکن 2016 میں یہ گھٹ کر 18.9 فیصد رہ گئی۔ ملزمین قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
تصویر: Reuters
30 فیصد ممبران پارلیمان ملزم
جنسی زیادتی کے ملزم سیاسی رہنماوں کو شا ذ ونادر ہی سزائیں مل پاتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا کے تقریباً 30 فیصد موجودہ اراکین کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اغوا جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
وحشیانہ جرم
جنسی درندے کسی بھی عمر کی خاتون کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں چند ماہ کی بچی سے لے کر 80 برس کی بزرگ خواتین تک شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan
ہر سطح پر اصلاح کی ضرورت
ماہرین سماجیات کا کہتے ہیں کہ صرف قانون سازی کے ذریعہ جنسی زیادتی کے جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی بیداری اور نگرانی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی
تصویر: Getty Images/N. Seelam
10 تصاویر1 | 10
جسم فروشی سے ڈیجیٹل ہنر تک
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں بدل رہی ہیں۔ نوالی گاؤں کی نو عمر لڑکیوں نے جسم فروشی کے کاروبار سے انکار کر دیا اور وہ اب ڈیجیٹل اسکلز کی تربیت حاصل کر ہی ہیں۔ نوالی کی اٹھارہ سالہ رہائشی رضیہ بھجدا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب یہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول جارہی ہیں اور اسی وجہ سے یہ تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ رضیہ کے بقول، ’’اب ہمیں ملازمتوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
بھارت کے نیشنل ای - گورننس پلان کے تحت دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل سہولیات متعارف کرانے کے سلسلے میں گزشتہ برس کامن سروس سینٹر (سی ایس سی) نامی تنظیم نے یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کو موبائل فون کی اییپس بنانے، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا کی پیشہ ورانہ تربیت دینے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم شروعات میں گاؤں کے باشندوں کو اس تبدیلی کے لیے راضی کرنا ایک مشکل عمل تھا۔
سی ایس سی کے چیف آپریٹنگ آفیسر دنیش تیاگی کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں روایتی ملازمت یا کاروبار کو تبدیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان کے بقول، ’’آپ کو لوگوں کے روایتی طرز عمل اور ذہنیت تبدیلی کرکے ان کے درمیان اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔‘‘
نوجوان لڑکیوں کے لیے روشن مستقبل
سی ایس سی کی ڈیجیٹل مہم نے اس پسماندہ علاقے کی نوجوان لڑکیوں کو موروثی جسم فروشی کے ماضی سے جان چھڑا کر اپنے بہتر مستقبل کے لیے ایک صحیح سمت کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نوالی کی ٹین ایجر لڑکی رانو بھیراگی نے بتایا، ’’اس گاؤں پر لگے بدنما داغ کی وجہ سے کوئی بھی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ لیکن میں اب دوبارہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘